عقل کیا منصبِ سرکار کی تحقیق کرے؟

جبکہ ایماں سے جدائی، اُسے زندیق کرے شہرِ طیبہ کا ہوں باشندہ، یہ دل کہتا ہے کاش تقدیر بھی اس خواب کی تصدیق کرے! میرے ہر شعر میں ہو مدحِ رسولِ اکرم ہر عمل میرا، مری بات کی توثیق کرے! فاصلے سارے عجم اور عرب کے مٹ جائیں اس قدر روح کو رَبّ مائلِ تشویق […]

بجائے اس کے کہ عبرتِ نشان ہو جائے

دعا کرو کہ یہ ملت جوان ہو جائے! جو دیں سے جوڑ دے دنیا کے سارے رشتوں کو اک ایسا ہم میں بھی صاحِب قِران ہو جائے یہیں پہ خلد کا منظر دکھائی دینے لگے نفاذِ دیں سے وہ امن و امان ہو جائے! میں حُبِّ سیِّدِ کونین کا جو ذکر کروں کشش پیام کی […]

ہر اِک چمن ہے خزاں رسیدہ ہر ایک گلزار سوختہ ہے

بس اِک مدینے کا باغ ہے جو بفضلِ رَبِّی ہرا بھرا ہے فراقِ طیبہ میں اب تو شاید جگر مرا خون ہو چلا ہے میں اُن فضاؤں سے دور رہ کر جیوں، کہاں میرا حوصلہ ہے محبتوں کے ہزار دعوے مگر عمل کے نشان دھندلے عمل کی راہیں تمام سونی ہیں،یہ عجب جذبۂ وفا ہے

جذبات ڈھل رہے ہیں یوں شاعری کے فن میں

میں نعت لکھ رہا ہوں یادوں کی انجمن میں بے مہر ہے زمانہ، نایاب صدق گوئی پھر کیوں نہ آئے احسنؔ تلخی مرے سخن میں! میں تابناک ماضی کی ضَو میں کھو گیا ہوں کچھ روشنی نہ آئی پھر بھی مرے چلن میں! آقا ! مری طرف بھی لِلّٰہ !چشمِ اُلفت! میں خود ہی اجنبی […]

رَب کا منشا تھا حضور آپ کا ظاہر ہونا

آشکار اُس نے کیا خوب، مُصوِّر ہونا آپ کی رفعت و عظمت کا اشارہ ہے فقط بابِ افلاک کا وا، آپ کی خاطر ہونا نعمتیں سب ہی عطا کی تھیں اُنہیں رَبّ نے مگر اُن کا مقصود رہا صابر و شاکر ہونا خاص تدبیر مرے رَبّ کی تھی ہنگامِ خطر غار میں آپ کے صدیقؓ […]

شہرِ اَبیات میںخامے کا سفر نازُک ہے

مدحِ سرکارِ دو عالم کا ہُنر نازُک ہے شوق بیتاب! کہ اظہار کے موتی رولے! آبیگنوں سے، عقیدت کا گُہر نازُک ہے دل تڑپتا ہے مدینے کی فضاؤں کے لیے عرصۂ ہجر میں جذبوں کی سِپَر نازُک ہے نعت کہنے کا تقاضا ہو تو خاموش رہو! بَرگِ گُل سے بھی تمنا کا ثمر نازُک ہے […]

نبی کے عشق سے روشن ہر ایک جادہ کریں

اُنہی کی سیرتِ اطہر سے استفادہ کریں! سبق جو بھول چکے ہیں اُسی کو دُہرائیں! عمل جو ترک کیا، اس کا اب اِعادہ کریں! قدم قدم پہ چراغِ وفا کریں روشن! محبتوں کی یونہی روشنی زیادہ کریں! اُنہی کے نام پہ کر دیں متاعِ جاں قرباں! اُنہی کے طرز پہ جینے کا پھر ارادہ کریں! […]

ہجر میں سوزِ دل تو ہے خیرِ انام کے لیے

دیکھیے کب ہو حاضری در پہ سلام کے لیے اُسوۂ شاہِ دیں کا ہو دل پہ طلوع آفتاب تاکہ شفق ٹھہر سکے زیست کی شام کے لیے ان کا پیام جزوِ جاں ایسے بنایئے کہ پھر مژدۂ جاں فزا ملے، عیشِ دوام کے لیے اہلِ جنوں بھی مصلحت کوش ہوئے عجیب ہے! برق و شرار […]