لذّتِ عیش پہ تُف ، رونقِ بازار پہ خاک

ان کا سگ ڈالتا ہے درہم و دینار پہ خاک شیر کی کھال میں ہر بھیڑیے عیار پہ خاک آل و اصحابِ شہنشاہ سے بیزار پہ خاک سیلِ گریہ سے بہا پایا نہیں کوہِ فراق میرے محرومِ اثر دیدۂ خوں بار پہ خاک عکسِ توصیفِ رخِ شہ نے اجالا ، ورنہ ’’ جم رہی تھی […]

اے نقطۂِ سطوحِ جہاں ! اے مدارِ خلق !

تو محورِ نفوس ہے ، تو اعتبارِ خلق تاریکیِٔ ضَلال میں بہرِ نشانِ فوز ہے اسوۂِ سراجِ مُنیری مَنَارِ خلق اک تیری یاد ٹھہری ہے تعویذ ہر بلا اک تیرا اسم خیر صفت ہے حصارِ خلق اِک دستِ مصطفیٰ کے تصرف میں نَظمِ کل اِک بازوئے رسول پہ سارا ہے بارِ خلق بازارِ ہست میں […]

وجہِ تسکینِ جاں درود شریف

ہے بسِ بے بساں دُرود شریف ہے غِنا کا سبب غریبوں کو کر دے غم کو دھواں درود شریف بھولی چیزوں کے یاد آنے کا نسخہ ہے بے گماں درود شریف پھول کے رس سے کیوں نہ شہد بنے پڑھتی ہیں مکّھیاں درود شریف شہد کی طرح نوعِ عصیاں کو کرتا ہے نیکیاں درود شریف […]

سحاب ، از پئے کشتِ امل درود شریف

بہار ، از پئے باغِ عمل درود شریف دوائے دافعِ دردِ خلل درود شریف طبیبِ شافیِ جملہ علل درود شریف قسیمِ کشفِ رموزِ علومِ عقل و نُقول کلیدِ علمِ حساب و رمل درود شریف کرے گا اہل سنن کو بروز حشر عزیز مٹا کے دفترِ جرمِ اَذَل درود شریف حصارِ حفظ ہے ہر غم سے […]

قائم ہے جبکہ مدحتِ خیر الورٰی سے ربط

پھر کیوں نہ ہو اثر کا ہماری دعا سے ربط کرتی ہیں ان کی بخششیں خود بے نوا سے ربط رکھتی ہیں خود شفاعتیں اہلِ خطا سے ربط اِک آپ کو ہے قرب فقیروں کے ساتھ خاص رکھتا نہیں ہے ورنہ کوئی شہ گدا سے ربط شیطان اور نفسِ لعیں نے لیا ہے گھیر آقا […]

کیسے بتلاؤں کہ پھر ہوں گا میں کتنا محظوظ ؟

نعت سن کر جو مری ہوں مرے آقا محظوظ جس کو اک بار کرے جلوۂِ خضریٰ محظوظ کر نہ پائے گا اسے اور نظارہ محظوظ کشتۂِ الفتِ انگشت عصائے موسیٰ وصفِ نعلینِ نبی سے یدِ بیضا محظوظ پھول کیا تیرے تکلم سے گلستان جھڑے شہد کو لہجۂِ شیریں کرے تیرا محظوظ سنتے ہی یاد نہیں […]

ہے مدحِ نعلِ شاہ کے زیرِ اثر دماغ

اس خاکسار کا ہے ابھی عرش پر دماغ رکھیے ! بہشتِ یادِ شہِ خلد میں اسے تاکہ بنے نہ لقمۂِ نارِ سقر دماغ آتے نہیں ہیں خشک مضامین فکر میں گر روغنِ درود سے ہو تر بتر دماغ پڑ جائے گر معلِّمِ حکمت کی اک نگاہ سلماں صفت ہو قلب تو لقماں اثر دماغ ہے […]

تُو ہر غم کا دافِع اے مَرفوع و رافِع !

سرکار کے دو مبارک اسماء ” مَرفوع (جس کو بلندی دی گئی) ” اور "رافع(بلند کرنے والا ، اُٹھانے والا ) ” کو ایک ساتھ بطور ردیف نظم کیا گیا۔ تُو ہر غم کا دافِع اے مَرفوع و رافِع ! عَذابوں سے مانِع اے مَرفوع و رافِع ! بَہ فکرِ ثنا سو نہ پاؤں تو […]

مطلعِ نورِ الٰہی ہے نہارِ عارض

مصدرِ ہشت جناں فیضِ بہارِ عارض اے سیہ کارو ! تمہیں طلعتِ بخشش کی نوید ! لِلہ الحمد کہ ہے زلف کنار عارض جیسے تفسیرِ "جلالین ” ہو گردِ مصحف ایسے ہی خط ہے یمین اور یسارِ عارض تیغِ تنویر سے کر دوں گا ابھی تجھ کو ہلاک میں ہوں اے ظلمتِ غم ! عاشقِ […]

جس کو شرف مآب کرے وصفِ پائے خاص

اس عام شخص کو بھی جہاں کیوں نہ پائے خاص سنگِ درِ نبی پہ جو ہیں جبہہ سائے خاص ان پر ہیں دو جہان میں رحمت کے سائے خاص اترا تنِ اثیم سے خود جامۂِ خطا آئے شفیع پہنے ہوئے جب قبائے خاص جنت میں اہل نعت کا اکرام ہے جدا ہوتا ہے اہتمام خصوصی […]