’’گوش بر آواز ہوں قدسی بھی اُس کے گیٖت پر‘‘

’’گوش بر آواز ہوں قدسی بھی اُس کے گیت پر‘‘ چوم لیں اُس کی زباں کو وجد میں وہ جھوم کر اُن کی عظمت کے ترانے جب سنائے خیر سے ’’باغِ طیبہ میں جب اخترؔ گنگنائے خیر سے‘‘

’’ستم سے اپنے مٹ جاؤ گے تم خود اے ستم گارو!‘‘

’’ستم سے اپنے مٹ جاؤ گے تم خود اے ستم گارو‘‘ فقط ہے چار دن کی چاندنی سُن لو جفا کارو تمہارا نام تک بھی ہو گا نہ کچھ کوئے سرور میں ’’سنو! ہم کہہ رہے ہیں بے خطر دورِ ستم گر میں ‘‘