’’بائیں رستے نہ جا مسافر سُن‘‘
تجھ پہ طاری ہے یہ کہاں کی دُھن دُزدِ ایماں ہزار پھرتے ہیں ’’مال ہے راہ مار پھرتے ہیں ‘‘
معلیٰ
تجھ پہ طاری ہے یہ کہاں کی دُھن دُزدِ ایماں ہزار پھرتے ہیں ’’مال ہے راہ مار پھرتے ہیں ‘‘
’’ اُن دو کا صدقہ جن کو کہا پھول ہیں مرے ‘‘ شبّابِ اہلِ خلد ہیں فرمانِ شاہ سے شاداب جن سے دینِ مبیں کا جمالِ گل ’’کیجے رضاؔ کو حشر میں خندہ مثالِ گل‘‘
دُنیائے علم و فن میں ہے شان تیری محکم عشقِ شہِ دَنا کے دریا بہا دئیے ہیں ’’جس سمت آ گئے ہو سکّے بٹھا دئیے ہیں ‘‘
نعمتوں کے با خدا قاسم ہیں پیارے مصطفا ہے ہر اک انسان کو حاجت رسول اللہ کی ’’بٹتی ہے کونین میں نعمت رسول اللہ کی‘‘
’’ سوکھے دھانوں پہ ہمارے بھی کرم ہو جائے ‘‘ دوٗر نقصان و زیاں شاہِ اُمم ہو جائے کشتِ بے نخل کی قسمت کو سنوارے گیسو ’’ چھائیں رحمت کی گھٹا بن کے تمہارے گیسو ‘‘
کونین میں ہے چار سوٗ تیرا ہی ذکر صبح و شام واصف ترا مرے نبی، خلّاقِ دو جہان ہے ’’کان جدھر لگائیے تیری ہی داستان ہے‘‘
ہیں ہم بھی شہِ دیں طلب گارِ برکت بلائیں ہمیں کہہ کے او جانے والے ’’بدوں پر بھی برسا دے برسا نے والے‘‘
سوٗرج اُلٹے پاوں پلٹے، ٹوٹی ہڈی بھی جڑیں سر سے پا تک معجزہ ذاتِ شہِ ابرار ہے ’’بارک اللہ مرجعِ عالم یہی سرکار ہے‘‘
مکینِ خلد وہ ہو گا، جو اِن کے در پہ مِٹا جو راہِ حق کے یہ روشن چراغ لے کے چلے ’’وہ کیا بہک سکے جو یہ سراغ لے کے چلے‘‘
اُن کے احسان سے طیبہ کو سفینے پہنچے جسم ہے ہند میں طیبہ کو دل و جان گیا ’’تم نہیں چلتے رضاؔ سارا تو سامان گیا‘‘