’’پیاسو! مژدہ ہو کہ وہ ساقیِ کوثر آئے‘‘
لو مبارک ہو کہ اب شافعِ محشر آئے جن سے ہر سمت سکوں، لوگو! بپا ہوتا ہے ’’چَین ہی چَین ہے اب جام عطا ہوتا ہے‘‘
معلیٰ
لو مبارک ہو کہ اب شافعِ محشر آئے جن سے ہر سمت سکوں، لوگو! بپا ہوتا ہے ’’چَین ہی چَین ہے اب جام عطا ہوتا ہے‘‘
گلشنِ عشقِ نبی کا عندلیبِ خوش نوا عاشقِ خیر الورا، وہ رہِ نُما ملتا نہیں ’’پیکرِ رُشد و ہدا احمد رضا ملتا نہیں ‘‘
خدایا! رہ نہ سکیں وہ کبھی بھی خوش آباد اُنھیں تُو جلد مٹا، یا خدا مدینے سے ’’الٰہی نکلے یہ نجدی بَلا مدینے سے‘‘
مِلی ہے تُربتِ خاکی میں جا کے مسروٗری وہ اپنا جلوۂ آرا دکھانے آئے ہیں ’’عرب کے چاند لحد کے سرہانے آئے ہیں ‘‘
منکر کو بھی دیتے ہیں رحمت سے دُعا آقا ہے کام شہِ دیں کا سب کو ہی عطا کرنا ’’آتا ہی نہیں گویا سرکار کو ’لا‘ کرنا‘‘
ملیں گی نعمتیں ساری، قسیم سے نوریؔ یہی تو رب کے خزانے لُٹانے آئے ہیں ’’یہ فیض و جود کے دریا بہانے آئے ہیں ‘‘
جس کو جو ملتا ہے وہ تو ہے اُسی دربار کا بے وسیلہِ مصطفیٰ کے مدعا ملتا نہیں ’’خود خدا سے پائے جو اُن کے سِوا ملتا نہیں ‘‘
ظلمتیں دور کیں نور برسا دیا شرک دنیا سے کیسا مٹا کر چلے ’’سارے عالم میں کیسی ضیا کر چلے‘‘
دور اک پل میں ہوئی ظلم و ستم کی صورت جب سے نظروں میں سمائی ہے حرم کی صورت ’’یاد بھی اب تو نہیں رنج و الم کی صورت‘‘
کہ تُو لعل ہے فاطمہ و علی کا نبی کا دلارا شہا غوثِ اعظم ’’ہے محبوبِ ربُّ العلا غوثِ اعظم‘‘