بسایا میں نے دل میں مصطفیٰؐ ہے
اُسی کے ساتھ اک ذات خدا ہے رہ دنیا سے پائی راہ عقبیٰ مری ہستی پہ یہ دہری عطا ہے
معلیٰ
اُسی کے ساتھ اک ذات خدا ہے رہ دنیا سے پائی راہ عقبیٰ مری ہستی پہ یہ دہری عطا ہے
سرمایۂ حیات محمد کی ذات ہے جس کے طفیل بزمِ دو عالم سجی عزیزؔ بے شک وہ ایک ذات محمد کی ذات ہے
خمیدہ سر یہاں ہر اِنس و جاں ہے یہی تو قبلہ گاہِ عاشقاں ہے
بن مانگے ہی خیرات سے کشکول بھرا ہے ہر آن ظفرؔ بھرتی ہیں یاں جھولیاں سب کی سرکارؐ کا در ہے یہ درِ جودُ و سخا ہے
کب تک رہے ضعف جاں گزائے اِسلام پھر از سرِ نو اِس کو توانا کر دے اے حامیِ اسلام خدائے اسلام
دلوں کو چین بھی ملتا ہے سبز گنبد سے دعا کرو کہ یہی نور روح میں بس جائے قبولیت ہو مقدم اَجل کی آمد سے
زِنہار دھیان ہو نہ قریب و بعید کا کر ان کا ذکر اور سنا کر انہی کی بات مقصود ہو فقط یہی گفت و شنید کا افسانیہ سنیے یار کا ذکر اس کا کیجیے مقصود ہے یہی مری گفت و شنید کا (کلیات آتشؔ۔ ص ۳۰۰) ہفتہ : ۹؍ ذیقعدہ ۱۴۲۹ھ…۸؍ نومبر ۲۰۰۸ء
انساں کی مشکلات کا حل اُسوۂ نبی ﷺ قرآں کی روشنی میں عمل کس طرح سے ہو اس کا جواب صرف اَٹل، اُسوۂ نبی ﷺ
احمدِ مختار ﷺ کی اُلفت کا یہ فیضان ہے
جس شہر میں آقا ہیں اُسی شہر میں ہم ہوں ایمان و عمل عشق کی راہوں میں بہم ہوں کردار سے یہ تیرگیاں راہ کی کم ہوں