لکھوں جو نعتِ پیمبر ﷺ تو کس طرح لکھوں
لیا ہے نام جو ان ﷺ کا لرز گیا ہے وجود کہاں میں اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے کہاں وہ نورِ مجسم، وہ حامد و محمود ﷺ
معلیٰ
لیا ہے نام جو ان ﷺ کا لرز گیا ہے وجود کہاں میں اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے کہاں وہ نورِ مجسم، وہ حامد و محمود ﷺ
ابھی تو صرف مری گفتگو میں رہتا ہے کتابِ زیست میں اے کاش لکھ سکوں میں کبھی اُنہی ﷺ کا رنگِ اطاعت لہو میں رہتا ہے
ہو منوّر دل تمہارے عشق سے دور دنیا کی محبت کیجیے ’’قطع میری سب سے نسبت کیجیے‘‘
’’باعطا تم ، شاہ تم ، مختار تم‘‘ مالکِ کوثر شہِ ابرار تم بے عمل ، بے آسرا سرکار ہم ’’بے نوا ہم ، زار ہم ، ناچار ہم‘‘
علو و رفعتِ خاکِ مدینہ کیا کہیے کہاں سے رتبہ کبھی اِس سے اعلا پائے فلک ’’اسی تراب کے صدقے ہے اعتدائے فلک‘‘
مدینے کی حاصل ہمیں ہو حضوری دل و جان سب اُس پہ وارا کروں میں ’’مدینے کی گلیاں بُہارا کروں میں ‘‘
تیری اُلفت کی چبھن میں ہے ملی غم کی دوا اپنا غم دے دے مرے سرورِ خوباں ہم کو ’’اے ملیحِ عَرَبی کر دے نمک داں ہم کو‘‘
ظلمتِ مرقد میں روشن ہوں گے بُقعے نوٗر کے زیرِ لب جاری رہے مدحت رسول اللہ کی ’’جلوہ فرما ہو گی جب طلعت رسول اللہ کی‘‘
بروزِ حشر رنج و غم کے طوفاں سے نہ گھبرانا ہے زیبا تاج شاہِ دیں کو اُمّت کی شفاعت کا ’’کبھی تو ہاتھ آ جائے گا دامن اُن کی رحمت کا‘‘
’’ ہے یہ اُمید رضاؔ کو تری رحمت سے شہا‘‘ ہاں ! تری چشمِ عنایت و شفاعت سے شہا نہ ہو حیران سرِ حشر وہ شیدا ہو کر ’’ کیوں ہو زندانیِ دوزخ ترا بندا ہو کر ‘‘