یہ جو مجھ پر نکھار ہے سائیں

آپ ہی کی بہار ہے سائیں آپ چاہیں تو جان بھی لے لیں آپ کو اختیار ہے سائیں تم ملاتے ہو بچھڑے لوگوں کو ایک میرا بھی یار ہے سائیں کسی کھونٹے سے باندھ دیجے اسے دل بڑا بے مہار ہے سائیں عشق میں لغزشوں پہ کیجے معاف سائیں! یہ پہلی بار ہے سائیں کل […]

جس سے رشتہ ہے نہ ناتا میرا

ذات اُس کی ہے اثاثہ میرا تیری زُلفیں ہی مِری شامیں ہیں تیرا چہرا ہے سویرا میرا تُو نیا چاند ، میں ڈھلتا سورج ساتھ نبھنا نہیں تیرا میرا میں ترا قرض چکاؤں کیسے؟ مجھ پہ تو قرض ہے اپنا میرا پیار کی میرے اُسے عادت ہے اُس نے غصّہ نہیں دیکھا میرا وہ تو […]

مِری آنکھ برکھا کا بے مہر پانی

تِری لہر بجلی ، مِری لہر پانی کہ چھلکے ہیں دریا کے جب بھی کنارے بہا لے گیا بستیاں ، شہر پانی اُتر آئے آنکھوں میں برسات موسم نظر آیا پھر دہر کا دہر پانی ق اُبھر آتا ہے ڈوبتا دوست چہرہ میں جب دیکھتا ہوں کبھی نہر ، پانی کسی کے لئے ہوگا تریاق […]

تھا فقط منظرِ صدا پتّا

سو ہوا شاخ سے رِہا پتّا موت ہے ہاتھ اِک جواری کا زندگی جیسے تاش کا پتّا شاخچوں سے ہوا کا جھگڑا تھا اور ندّی میں جا گِرا پتّا چاندنی میں چراغ لگنے لگا آب پر زرد تیرتا پتّا جم کے پتھر پہ ہو گیا پتھر ایک تصویر کھینچتا پتّا تیری چاہت کی سبز ڈالی […]

نفرتوں کا وسیع دریا ہو

ہاتھ شل ہو چکے ہیں چپوّ سے ایک دم ہو گیا ہوں پتھر کا آپ کی گفتگو کے جادو سے دن نکلتا ہے دیکھ کر چہرہ شب بندھی ہے تمھارے گیسو سے پھر مجھے کاٹنے لگا بستر اُٹھ گیا تھا کوئی جو پہلو سے اُس نے ٹانکا تھا پھول کالر میں میں مُعطّرہوں اُس کی […]

دعائیں مانگیں ہیں مدتوں تک جھکا کے سر ہاتھ اٹھا اٹھا کر

ہوا ہوں تب میں بتوں کا بندہ خدا خدا کر خدا خدا کر دعا لب جام نے بھی مانگی سبو نے بھی ہاتھ اٹھا اٹھا کر ہماری محفل میں آیا ساقی خدا خدا کر خدا خدا کر دکھایا وحدت نے اپنا جلوہ دوئی کا پردہ اٹھا اٹھا کر کروں میں سجدہ بتوں کے آگے تو […]

کسی بھی دشت کسی بھی نگر چلا جاتا

میں اپنے ساتھ ہی رہتا جدھر چلا جاتا وہ جس مُنڈیر پہ چھوڑ آیا اپنی آنکھیں ، میں چراغ ہوتا تو لو بھول کر چلا جاتا اگر میں کھڑکیاں دروازے بند کر لیتا تو گھر کا بھید سرِ رہ گزر چلا جاتا مِرا مکاں مِری غفلت سے بچ گیا ورنہ کوئی چرا کے مرے بام […]

چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا

یہ سانحہ مِرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا جو پہلے روز سے دو آنگنوں میں تھا حائل وہ فاصلہ تو زمین آسمان میں بھی نہ تھا یہ غم نہیں ہے کہ ہم دونوں ایک ہو نہ سکے یہ رنج ہے کہ کوئی درمیان میں بھی نہ تھا ہوا نہ جانے کہاں لے گئی […]

دل میں اب کوئی ترے بعد نہیں آئے گا

سنگِ ارزاں تہِ بنیاد نہیں آئے گا دن نکلتے ہی بُھلا دوں گا میں اندیشۂ روز سرحدِ صبح میں شب زاد نہیں آئے گا ایسے اک طاقِ تمنا پہ رکھ آیا ہوں چراغ بجھ گیا بھی تو مجھے یاد نہیں آئے گا حسنِ خود دار کو اِس دورِ خود آرا میں بہم ہنر مانی و […]

اِس کے ہر ذرّے سے پیمان دوبارہ کر لو

اپنی مٹی کو مقدر کا ستارہ کر لو برف سی جمنے لگی دل پہ نئے موسم کی ہجر کی آنچ کو بھڑکا کے شرارہ کر لو صحن بھر چاندنی کب راہ نوردوں کا نصیب آنکھ میں عکس قمر بھر کے گزارہ کر لو تلخیاں ہیں نئے منظر میں ہماری اپنی خوش نظر بن کے یہ […]