اب بھی ہے یاد مجھ کو پہلی لگن کا جادُو
سر چڑھ کے بولتا تھا اُس کے بدن کا جادُو قامت تھی یا قیامت، شُعلہ تھا یا سراپا پھیکا تھا اُس کے آگے سرووسمن کا جادُو آنکھوں میں تیرتے تھے ڈورے سے رتجگوں کے انگڑائی میں گُھلا تھا میٹھی تھکن کا جادُو کلیوں کے جیسے کومل تھے ہاتھ پاؤں اُس کے غُنچوں کو چھیڑتا تھا […]