عجب لُطفِ خدا کا مرحلہ ہے
عجب فیض و عطا کا مرحلہ ہے مرے قلبِ تپاں مسرُور ہو جا جمال کبریا کا مرحلہ ہے
معلیٰ
عجب فیض و عطا کا مرحلہ ہے مرے قلبِ تپاں مسرُور ہو جا جمال کبریا کا مرحلہ ہے
کبھی دیر و حرم میں ڈھونڈتا ہے خدا بستا ہے انسانوں کے دل میں نہ کیوں خانۂ دل میں جھانکتا ہے
میں کہتا ہوں خدا میرا مرے دل میں نہاں ہے خدا ہے لاشریک، اُس کا ظفرؔ ہم سر نہیں کوئی خدا لاریب واحد ہے، وہ یکتا بے گماں ہے
ہر دم مری زباں پہ ہے تیری ہی گفتگو ہر دم مرے قریب ہے تو میرے چارسُو ہر دم تخیلات میں تو میرے رُوبرو
یہی مسلک حبیبِ کبریا کا کرے انسان انساں سے محبت ہے یہ منشور انساں کی بقا کا
مرے مولا مجھے اپنی خبر دے دل و جاں میں تجھے محسوس کر لوں مری آہوں میں اتنا تو اثر دے
ترے جُود و سخا کا غلغلہ ہے تو قطرے کو بنا ڈالے سمندر ظفرؔ تیری عطائیں جانتا ہے
کوئی ناصر نہ مُونس تیرے جیسا، خداوندا تو ہم پہ رحم فرما ترے محبوب کی اُمت پریشاں، بھنور طوفان میں غلطاں و پیچاں ہے ساحل دُور اوجھل ہے کنارا، خداوندا تو ہم پہ رحم فرما
تو غفور ہے تو رحیم ہے تو حلیم ہے تو کریم ہے تو حکیم ہے تو عظیم ہے
جو رحمت کا محبت کا جہاں ہے، وہی تیرا خدا میرا خدا ہے وہ جو ہے بے سہاروں کا سہارا، جو طوفاں میں کرے پیدا کنارا وہ جو ننگے سروں پر سائباں ہے، وہی تیرا خدا میرا خدا ہے