خدا آفاق کی روحِ رواں ہے
خدا قائم ہے دائم جاوداں ہے خدا مُونس شفیق و مہرباں ہے خدا دِل کا سکوں آرامِ جاں ہے
معلیٰ
خدا قائم ہے دائم جاوداں ہے خدا مُونس شفیق و مہرباں ہے خدا دِل کا سکوں آرامِ جاں ہے
خدا انسان کے دل میں مکیں ہے خدا موجود ہر جا، ہر کہیں ہے خدا سا مہرباں کوئی نہیں ہے
ترے کانوں میں بھی رس گھولتا ہے نمازوں میں خدا کو دیکھ تو بھی تجھے تیرا خدا تو دیکھتا ہے
سمندر ایک قطرے کو بنائے خدا محفوظ رکھے حاسدوں سے خدا اشرار کے شر سے بچائے
مکرم ہے معظم، محتشم ہے خدا ستار بھی غفار بھی ہے ظفرؔ کا وہ سدا رکھتا بھرم ہے
نہ ڈالے آزمائش، امتحاں میں نہ ڈر تشکیک میں، وہم و گماں میں رہے موجود میرے قلب و جاں میں
خدا سارے جہانوں کا خدا ہے خدا آتا ہے خود مہمان بن کر خدا سب میزبانوں کا خدا ہے
خدا عشاق کے دل میں نہاں ہے خدا ہر ایک ذرّے میں عیاں ہے خدا لطف و کرم کا سائباں ہے
خدا کے حکم سے ہی گلفشاں ہر گلستاں ہے خدا کے نور کا پرتو دمکتی کہکشاں ہے خدا کے نُور پر قرباں مرا دِل جسم و جاں ہے
فضاؤں میں سمندر، کوہ و بن میں خدا موجود خلوت، انجمن میں ظفرؔ کے قلب و جاں، روح و بدن میں