خدا نے جس کو سیدھی راہ دکھائی
خدا تک ہو گئی اُس کی رسائی عطا اُس کو ہوئی مشکل کشائی ظفرؔ دیکھو تو جُودِ کبریائی
معلیٰ
خدا تک ہو گئی اُس کی رسائی عطا اُس کو ہوئی مشکل کشائی ظفرؔ دیکھو تو جُودِ کبریائی
خدا معبود ہے، حاجت روا ہے خدا ہی قائم و دائم سدا ہے ظفرؔ سے بیکسوں کا آسرا ہے
عجب سی بیقراری ہے، مرے آنسو نہیں تھمتے خدا کا ذکر یادِ مصطفیٰ باہم ظفر میں نے دل و جاں میں اُتاری ہے، مرے آنسو نہیں تھمتے
میری پرواز ہے کون و مکاں پر فقیر راہ بیٹھا ہے زمیں پر تخیل ہے ظفرؔ کا آسماں پر
خدا ہرگز نہیں سرِ نہاں ہے ظفرؔ یاں سر خمیدہ، دم کشیدہ یہ بیت اللہ عظمت کا جہاں ہے
یہ امن و آشتی کا ترجماں ہے یہی گھر منزلِ انسانیت ہے یہ اِنسانوں کی وحدت کا نشاں ہے
بھنور نے سطحِ دریا پر اُبھارا لبِ ساحل خدا لے آیا مجھ کو کیا منجدھار میں پیدا کنارا
خدا فرمانروا ہم سب کا حاکم خدا کی نعمتیں بے انتہا ہیں خدا کا شکر ہم کرتے ہیں کم کم
جو موجودات میں واضح عیاں ہے گزرگاہِ خدا ہے چشم گِریاں یا پھر عشاق کا قلبِ تپاں ہے
خدا کا ذکر میری بندگی ہے مرے غفلت میں جو لمحات گزرے ہے پچھتاوا مجھے شرمندگی ہے