صدائے کن فکاں پرتو خدا کا
جمالِ دل براں پرتو خدا کا بہارِ گلستاں پرتو خدا کا ظفرؔ حُسنِ زماں پرتو خدا کا
معلیٰ
جمالِ دل براں پرتو خدا کا بہارِ گلستاں پرتو خدا کا ظفرؔ حُسنِ زماں پرتو خدا کا
مجھے مشکلوں سے نکال دے مجھے سیدھی راہ پر ڈال دے مجھے اپنی چاہ میں ڈھال دے
محبت اپنے بندوں سے خدا کی محبت غیر فانی، جاودانی ہے اُمت سے حبیبِ کبریا کی
ثناء خوانوں کا مرکز گھر خدا کا ظفرؔ اُمت کی وحدت کا نشاں ہے سب انسانوں کا مرکز گھر خدا کا
میں مجرم روسیہ ہوں اور تو ستّار بھی غفار بھی ہے میرے جرم و سیہ کاری پہ رحمت تیری بھاری ہے کہ میں سب سے بُرا ہوں اور تو ستّار بھی غفار بھی ہے
جبیں میں ضو فشاں نورِ محمد، اُن کو دکھلایا خدا نے فرشتے گر گئے سجدے میں جب نورِ مبیں دیکھا زمیں پر ہے مرا نائب یہ سمجھایا خدا نے
ہے یہ منطق خدائے لم یزل کی علمداری ہر اِک جا عدل کی ہو جزا ملتی رہے حُسنِ عمل کی
خدا کا سب زمانوں پر کرم ہے خدا کا نُور برسے قلب و جاں پر خدا کے فضل سے ہی دم میں دم ہے
بنا کر آپ کو سردارِ اُمت، خدا نے عظمتیں بخشی ہیں کیا کیا شبِ معراج پاس اپنے بُلا کر، فلک پر خلوتیں بخشی ہیں کیا کیا مری سرکار کو اپنا بنا کر، خدا نے رفعتیں بخشی ہیں کیا کیا
محبت، عشق سے قلبِ تپاں سے وفورِ شوق سے، حُسنِ بیاں سے کرو باتیں خدائے مہرباں سے