خدائے مہرباں کی ذاتِ باری
نگہبان و محافظ ہے ہماری خدائی رحمتوں کا سلسلہ ہے ازل سے تا ابد جاری و ساری
معلیٰ
نگہبان و محافظ ہے ہماری خدائی رحمتوں کا سلسلہ ہے ازل سے تا ابد جاری و ساری
شعور و آگہی، عرفان بخشا ملایا جس نے بندوں کو خدا سے وہ رہبر حاملِ قران بخشا
نظر کے سامنے ہر دم حرم ہے جلالِ کبریا، جاہ و حشم ہے ظفرؔ کی اشک افشاں چشمِ نم ہے
گنہگاروں کا تُو غفار بھی ہے تہی دستوں کا پالن ہار بھی ہے دلِ بیمار کا دل دار بھی ہے
محبت کا جہاں آباد رکھنا نکالے گا وہی ہر ابتلاء سے ظفرؔ لب پر نہیں فریاد رکھنا
کلیمِ عشق کا دربان ہوں میں مرے دِل میں سمایا عشقِ ربی ظفرؔ عشاق کی پہچان ہوں میں
رفو کر دے دریدہ میرا داماں ظفرؔ کو کر عطا رزقِ فراواں بنا دے اُس کو ہم دردِ غریباں
خدائے پاک کی جود و سخا اللہ اکبر کرم رب کا، عطائے کبریا اللہ اکبر خدائی کا یہ پیہم سلسلہ اللہ اکبر
نہ خوف جور و استبداد رکھنا دلِ مضطر ظفرؔ یوں شاد رکھنا سدا دِل میں خدا کی یاد رکھنا
نہ پہنچیں گر حبیبِ کبریا تک خدا تک راہبر ہیں، رہنما ہیں وہ پہنچاتے ہیں انساں کو خدا تک