یزیدوں کی نسلوں کو پیغام پہنچے

یہ میدان خُم میں جو من کُنتُ مولا کا نعرہ لگا تھا تو مسجد میں کوفے کی نفسِ مُحّمد علی کی شہادت اُسی قول سرور سے تمہاری نسلوں کی تھی یہ عداوت یہ من کُنتُ مولا کا نعرہ ہی تھا جس کی آتش کی حدت ہمیں کربلا میں یزیدوں کی نسلوں کے سینوں میں اُٹھتی […]

یا رب، چمنِ نظم کو گلزارِ ارم کر

اے ابرِ کرم، خشک زراعت پہ کرم کر تو فیض کا مبدا ہے، توّجہ کوئی دم کر گم نام کو اعجاز بیانوں میں رقم کر جب تک یہ چمک مہر کے پرتو سے نہ جائے اقلیمِ سخن میرے قلمرو سے نہ جائے ہر باغ میں چشمے ہیں ترے فیض کے جاری بلبل کی زباں پر […]

کیا زخم ہے وہ زخم کہ مرہم نہیں جس کا

کیا درد ہے جز دل کوئی محرم نہیں جس کا کیا داغ ہے جلنا کوئی دم کم نہیں جس کا کیا غم ہے کہ آخر کبھی ماتم نہیں جس کا کس داغ میں صدمہ ہے فراقِ تن و جاں کا وہ داغ ضعیفی میں ہے، فرزندِ جواں کا مطلعِ دوم جب باغِ جہاں اکبرِ ذی […]

اُن کو مجرا تھے جو زیرِ آسماں بیٹھے ہوئے

بھوکے پیاسے بے وطن بے خانماں بیٹھے ہوئے شورِ ماتم سن کے اہلِ بیت کا سب اہلِ شام شادیاں کرتے تھے گھر میں شادماں بیٹھے ہوئے شاہ اس پر بھی اٹھا دیتے تھے اعدا کے قدم تیر تن پر، دل پہ داغِ جاں ستاں بیٹھے ہوئے وا دریغا دستِ عابد میں تو ہو اُن کی […]

کربل کی فضا کہتی ہے شبیر ، اماں ہو

مقتل کی بڑھا آئے ہو توقیر ، اماں ہو حلقوم علی اصغر معصوم سے نکلا بدلے میں فقط پیاس کے ، اک تیر ، اماں ہو عباس علمدار ترے سامنے دریا شرمندہ ہے ، مدت سے ہے دلگیر ، اماں ہو زینب کی صداؤں سے ابھی گونج رہی ہے کربل کی فضا اب بھی ، […]