مجھے عزمِ سفر دے دے خُدایا
مدینہ کی ڈگر دے دے خُدایا درِ محبوب تک دے دے رسائی ظفرؔ کو بال و پر دے دے خُدایا
معلیٰ
مدینہ کی ڈگر دے دے خُدایا درِ محبوب تک دے دے رسائی ظفرؔ کو بال و پر دے دے خُدایا
میں نعتِ مصطفیٰ دِن رات لکھوں درُود اُن پر سلام اُن پر مَیں بھیجوں ہیں محبوبِ خدا دِن رات لکھوں
پئے عشاق روشن اِک نیا انداز کر جائے شکستہ پر پرندہ بھی درِ سرکار تک پہنچے محبت میں نئے اِک باب کا آغاز کر جائے
مرے خیر الوریٰ میرے محمد خزاؤں میں بہاریں لوٹ آئیں ہوئے جلوہ نما میرے محمد
حبیبِ کبریا، خیر الوریٰ کا وہ پائے گا جو مانگے گا خُدا سے وسیلہ گر ہو محبوبِ خدا کا
مدینہ اُڑ کے پہنچوں بال و پر دے میں ہوں بے آسرا، بے گھر خدایا مجھے سرکار کے قدموں میں گھر دے
مرے لب پر نبی کی بات دے دیں اُتر جائیں جو ہر اِک سنگدل میں مجھے وہ دل نشیں کلمات دے دیں
محبت کی مجھے سوغات دے دیں سدا لکھوں میں حمد و نعت یا رب زباں پر میری، اپنی بات دے دیں
جفا و جور کی رُوداد سُن لیں ہے اُمت آپ کی کرب و بلا میں کریں امداد اب فریاد سُن لیں
تنِ لاغر میں، جسمِ ناتواں میں مرے اسلوب و اندازِ بیاں میں مرے افکار میں، روحِ رواں میں