محمد با خدا پیشِ نظر ہیں
حبیبِ کبریا پیشِ نظر ہیں وہی تو رحمۃ اللعالمیں ہیں شفاعت کے وہی پیغام بر ہیں
معلیٰ
حبیبِ کبریا پیشِ نظر ہیں وہی تو رحمۃ اللعالمیں ہیں شفاعت کے وہی پیغام بر ہیں
مری سرکار کے سب معجزے واضح عیاں بھی کبھی مُٹھی میں کنکر خودبخود ہیں بول اُٹھتے کبھی منبر کی چوبِ خشک کرتی ہے فغاں بھی
روح و جاں کی ندا، حبیبِ خدا مرے ماں باپ بھائی اور بچے آپ ہی پر فِدا حبیبِ خدا
ذکرِ خیر الانام کرتے ہیں نعت سرکار خود لکھاتے ہیں ہم تو بس اہتمام کرتے ہیں
دُور رہ کر بھی ہوں مدینے میں آپ دِل میں نہ گر سمائے ہوں لُطف کیا خاک ایسے جینے میں
مجھے اپنا ہی خادم اپنے ہی در کا گدا رکھنا جُدائی روح فرسا اور دُوری جان لیوا ہے مجھے قدموں میں اپنے ہی مرے آقا بُلا رکھنا
کرم اُن کا ہے یہ اُن کی عطائیں میں جب بھی نعتیہ اشعار لکھوں سُنائی دیں مجھے غیبی صدائیں
سب زمانوں نے دیکھا بھالا ہے اِک نگاہِ کرم ظفرؔ پر بھی آپ کا نام لینے والا ہے
بے سہارا ہیں ہم حبیبِ خدا آپ جب سر پہ ہاتھ رکھتے ہیں درد جاتا ہے تھم حبیبِ خدا
نعت ہو گی رقم حبیبِ خُدا نعت لکھتے ظفرؔ ہے اشک افشاں ضو فشاں ہے قلم حبیبِ خُدا