خواہشِ دل کا احترام کیا
بزمِ مدحت کا اہتمام کیا میرے آقا کا حکم سنتے ہی سنگ ریزوں نے بھی کلام کیا
معلیٰ
بزمِ مدحت کا اہتمام کیا میرے آقا کا حکم سنتے ہی سنگ ریزوں نے بھی کلام کیا
مجھ میں کھلتے ہیں روشنی کے پھول میں درِ نور پر ہوا حاضر تحفتاََ لے کے عاجزی کے پھول
چراغ بن کے اندھیروں میں جگمگاؤں گا تمہارے شہر کے رستے سے خار چن چن کر نظر سے چوموں گا دل سے اُنھیں لگاؤں گا
درِ حضور سے رشتہ بحال رکھتا ہوں اِسے مدینے کی مٹی سے خاص نسبت ہے کھجور کھا کے میں گٹھلی سنبھال رکھتا ہوں
درود آپ پہ شاہا کہ خود محمد ہیں ہوئے جو آپ سے منسوب سب ممجدد ہیں ثنا میں وقف تمامی حروفِ ابجد ہیں
ہر مصیبت میں ہم سنبھلتے گئے اُن سے جب بھی کہا ہے اَدْرِکْنِیْ سارے طوفان رُخ بدلتے گئے
چارہ گر آپ کے ہوتے ہوئے ڈرنا کیسا وردِ جاں آپ کا جب ذکرِ مبارک ہے شہا پھر لبوں پہ کسی حسرت کا مچلنا کیسا
دُنیا میں در حضور کا یکتا دکھائی دے ارض و سما بھی وجد میں آجاتے ہیں شکیلؔ جب رحمتِ حضور کو منگتا دکھائی دے
مدینے پاک کی اُن وادیوں میں کھو جاؤں کبھی میں عشقِ ابوبکرؓ میں مچلتا پھروں کبھی بلالؓ کی بے تابیوں میں کھو جاؤں
دولتِ عشق عطا کر مجھے چشمِ تر دے دے کے حسنینؓ کا صدقہ مجھے اذنِ مدحت میری نسلوں کا بھی کشکولِ تمنا بھر دے