سرکار دو عالم کی جس پر بھی نظر ہو گی
اس شخص کی ہر ساعت پھولوں میں بسر ہو گی مایوس نہیں لوٹا کوئی درِ خضرا سے شب لاکھ اندھیری ہو ، اس کی بھی سحر ہو گی
معلیٰ
اس شخص کی ہر ساعت پھولوں میں بسر ہو گی مایوس نہیں لوٹا کوئی درِ خضرا سے شب لاکھ اندھیری ہو ، اس کی بھی سحر ہو گی
مرنے والوں کو حیات جاودانی مل گئی مجھ کو قسمت نے بڑا منصب دیا ہے اے صبا یعنی محبوب خدا کی مدح خوانی مل گئی
ایک کانٹا بھی جو رستے سے ہٹا دیتے ہیں زندہ کرتے ہیں وہی سُنتِ محبوبِ خدا زخم کھا کھا کے جو دشمن کو دعا دیتے ہیں
دردِ انسانیت کی دوا کر گئے اُن کی خیرالورائی کے صدقے حفیظؔ اُن پہ قرباں جو سب کا بھلا کر گئے
عام ہے چشمۂ فیضانِ رسولِ عربی غیر ممکن اُسے عرفانِ خدا ہو حاصل جس کو حاصل نہیں عرفانِ رسولِ عربی
ہاں وہی فرق مٹانا نہیں آتا مجھ کو نعت کو نعت ہی رکھنے کو سمجھتا ہوں کمال نعت کو حمد بنانا نہیں آتا مجھ کو