آقا کے در پہ جو بھی سوالی چلا گیا
کب نامراد لوٹا یا خالی چلا گیا حاضر درِ حبیب ہوا جب بھی وارثیؔ کر کے سلام چوم کے جالی چلا گیا
معلیٰ
کب نامراد لوٹا یا خالی چلا گیا حاضر درِ حبیب ہوا جب بھی وارثیؔ کر کے سلام چوم کے جالی چلا گیا
پھیلا ہے نور آپ کا سارے جہان میں ہر ذی نفس کو اس لیے قسمت پہ ناز ہے امت وہ بخشوائیں گے محشر میں وارثیؔ ہر امتی کو ان کی شفاعت پہ ناز ہے
عرش والے وہاں پہنچے ہیں سلامی کے لیے اپنی قسمت پہ نہ کیوں ناز کریں وارثیؔ جی اذن ہوجائے عطا جن کو غلامی کے لیے
بخشوانے ہمیں تاجدار آ گئے خوش نصیبی ہے امت کی یہ وارثیؔ لب پہ آقا کے جو بار بار آگئے
نبی ماہِ کامل صحابہؓ ستارے نہ امید ہوتی شفاعت کی آقاؓ کہاں جاتے محشر میں عاصی بے چارے
اتنا آساں نہیں ہر کسی کے لیے عظمتِ مومنیں ہے یہی وارثیؔ جینا مرنا ہے سب کچھ نبی کے لیے
غلاموں کے سر پر ہیں رحمت محمد یہ ایمان ہے وارثیؔ روزِ محشر کریں گے ہماری شفاعت محمد
تیرے تلووں کو جو چھولے بنے خاکِ شفا دلکش زمانے میں نہیں ہے وارثیؔ اس کا کوئی ثانی مرے آقا تری گلیوں کی ہے آب و ہوا دلکش
میرے دیوانے بتا کیوں اس قدر ناشاد ہو ہو ٹھکانہ آخری قربِ نبی میں وارثیؔ روح جب اس زندگی کی قید سے آزاد ہو
کروں مدحت نہ کیوں آقا کی میں اس کے تشکر میں رہے وردِ درود پاک لب پر وارثیؔ ہر دم وسیلہ یہ ہی کام آئے گا عاصی اپنے محشر میں