قریۂ خوشبو مری سانسوں کو مہکانے لگا
دھڑکنوں میں بھی درودی کیف سا چھانے لگا ہیں نخیلِ نُور یا قدسی قطار اندر قطار جگمگاتا سا حسیں منظر نظر آنے لگا سبز گنبد سامنے ہے اور آنکھیں اشکبار پھر مقدّر دید کی امّید بر لانے لگا کہکشاں شمس وقمر راہوں میں ایسے بچھ گئے آسماں جیسے زمیں کو چومنے آنے لگا آرزوئیں پا […]