چڑھتی عمروں کے فسانے کھڑکیوں میں رہ گئے

جتنے بھی خط ہم نے لکھے ، کاپیوں میں رہ گئے شہرِ ناقدراں کا تحفہ بھی نہ یکجا رکھ سکے زخم گھر تک لائے ، پتھر راستوں میں رہ گئے ہم تو خود اک سانولے منظر کے قیدی ہو گئے اور ہمارے تذکرے رنگیں رُتوں میں رہ گئے

فردوس آب و گل کے نظاروں کا شوق ہے

چشموں کا رنگ و بو کا بہاروں کا شوق ہے انسانیت کے رِستے ہوئے زخم چھوڑ کر دانشوروں کو چاند ستاروں کا شوق ہے ہستی کی تلخیاں جو گوارا نہ ہو سکیں زندوں سے ہے نفور ، مزاروں کا شوق ہے