چڑھتی عمروں کے فسانے کھڑکیوں میں رہ گئے
جتنے بھی خط ہم نے لکھے ، کاپیوں میں رہ گئے شہرِ ناقدراں کا تحفہ بھی نہ یکجا رکھ سکے زخم گھر تک لائے ، پتھر راستوں میں رہ گئے ہم تو خود اک سانولے منظر کے قیدی ہو گئے اور ہمارے تذکرے رنگیں رُتوں میں رہ گئے
معلیٰ
جتنے بھی خط ہم نے لکھے ، کاپیوں میں رہ گئے شہرِ ناقدراں کا تحفہ بھی نہ یکجا رکھ سکے زخم گھر تک لائے ، پتھر راستوں میں رہ گئے ہم تو خود اک سانولے منظر کے قیدی ہو گئے اور ہمارے تذکرے رنگیں رُتوں میں رہ گئے
نہ حکایت کبھی ایسی نہ شکایت اتنی تیرِ مژگاں بھی کبھی اُن کو پہونچنے نہ دیا گو خود ہی سے ہے آنکھوں کو محبت اتنی
اور پھر بھی سوچتا کوئی نہیں تیرگی حدّ نظر تک تیرگی اور پھر بھی دیکھتا کوئی نہیں
پرچھائیوں سے کون و مکاں کس طرح بنے ناخن سے سینہ چیر لوں کچھ کہہ نہ پاؤں میں ناخن ہے تیز پھر بھی زباں کس طرح بنے
خوشا کہ مستی فیضِ جنوں سے چیخ اٹھے یہ ناز طبع بلند بہ زعم خود نگہی زمانہ سازی دنیائے دوں سے چیخ آٹھے
چشموں کا رنگ و بو کا بہاروں کا شوق ہے انسانیت کے رِستے ہوئے زخم چھوڑ کر دانشوروں کو چاند ستاروں کا شوق ہے ہستی کی تلخیاں جو گوارا نہ ہو سکیں زندوں سے ہے نفور ، مزاروں کا شوق ہے
ایک ہلچل سی مچی رہتی ہے جب دل کے قریب اپنی کوتاہیٔ دانش کا گلہ کیا کیجیے بارہا ہم بھی گئے تھے درِ زنداں کے قریب
اب نہ دشمن کا ڈھونڈو کرم ساتھیو منحصر ہے یہ دنیا جو اسباب پر سب ہی اسباب ہوں گے بہم ساتھیو
زندہ دل ہنستے ہنستے گذر جائیں گے موت سے بھی مریں گے نہیں زورؔ ہم زندگی میں جو کچھ کام کر جائیں گے
میں اپنے زخم نمودار کرنے لگتا ہوں