چڑھتی عمروں کے فسانے کھڑکیوں میں رہ گئے
جتنے بھی خط ہم نے لکھے ، کاپیوں میں رہ گئے
شہرِ ناقدراں کا تحفہ بھی نہ یکجا رکھ سکے
زخم گھر تک لائے ، پتھر راستوں میں رہ گئے
ہم تو خود اک سانولے منظر کے قیدی ہو گئے
اور ہمارے تذکرے رنگیں رُتوں میں رہ گئے