آباد رہیں تیرے تبسم کے جزیرے

ہم بحر حوادث سے نہ ابھرے بھی تو کیا ہے معمور و منور ہوں ترے روپ کے ساحل ہم لوگ اگر پار نہ اترے بھی تو کیا ہے نکھرا ہی رہے اوس کی بوندوں سا یہ چہرہ حالاتِ گلستان نہ سدھرے بھی تو کیا ہے ہم لوگ تھے شہکار ترے دستِ قضا کا مانے بھی […]

سارے لایعنی قصے تھے جو لگتے تھے با معنی

میرا ہونا کیا معنی تھا اور نہ ہونا کیا معنی میں نے ساری عمر لگا کر یہ لاینحل شعر کہے کون بھلا مطلب تک پہنچا کون بھلا سمجھا معنی تیری برف سماعت پر میرے حرفوں کی آگ بجھی تیرے فہم کی دیواروں سے پھوڑ کے سر ہارا معنی جیسا ادق جتنا مشکل تھا ، تھا […]

اس سے پہلے کہ لہو چشمِ وفا سے پھوٹے

کوچہِ خواب سے میں کیوں نہ کنارہ کر لوں تم وہ بے حس کہ مزاقاً مری تذلیل کرو میں وہ لاچار کہ ہر بار گوارا کر لوں روح کہتی ہے کہ یہ منزلِ مقصود نہیں جسم کہتا ہے بہرحال گزارا کر لوں

اک ثانئے کو چونک اٹھے تم کو دیکھ کر

مصروفِ رقصِ مرگ مگر پھر سے ہو گئے ہئیت وہ ہو چکی تھی کہ جب لوٹنا ہوا رستے جھجھک کے دور مسافر سے ہو گئے شاعر ہے نصف مجھ میں تو ہے نصف بھیڑیا اور تم خفا ہوئے بھی تو شاعر سے ہو گئے

میں کان ہاتھ سے ڈھانپے یونہی نہیں بیٹھا

کہ مجھ میں چیخ رہا ہے شکست خوردہ جنوں تمام عمر دکھایا نہ معجزہ کوئی تو آج خاک تماشہ دکھائے مردہ جنوں فنا ہوا ہے کہاں دست برد سے غم کی مقابلے پہ اترتا ہے دست بردہ جنوں سبھی لباس دلاسوں کے نوچ کر مجھ کر عجیب طنز سے ہنستا رہا فسردہ جنوں

یہ یک رخی تو نہ تھی ، چو مکھی لڑائی تھی

میں ہارتا کبھی خود سے تو جیتتا تم کو عروج عشق کا پرچم تھا اور بقاء خوبی زوال مجھ کو مبارک ہو انتہا تم کو بہا ہی چاہتا ہوں وقت کے سمندر میں سلام وحشتِ کامل کو اور دعا تم کو

رہتے ہیں تا حیات تعاقب میں سانحے

نوحہ گری ہنر ہی نہیں معجزہ بھی ہے پہلے نہ تھی کبھی نہ دوبارہ کبھی بھی ہے ناکامیاب عمر مری واقعہ بھی ہے ہیں مختلف جہات مری کائنات کی حیرت کدہ بھی ہے تو یہ عبرت کدہ بھی ہے اس کے سوا بھی کون سی شئے کو ثبات ہے بالفرض میرا عشق اگر شعبدہ بھی […]

شکوہ تو نہیں خیر سماعت سے تمہاری

لیکن مری آواز کو سن پاؤ تو بہتر دل خاک ہوا خاک میں اب کون سی حس ہو ٹھہرو تو قدم بوس رہے ، جاؤ تو بہتر اب مجھ میں انا نام کی کچھ چیز نہیں ہے تم آؤ تو بہتر ہے ، نہیں آؤ تو بہتر پہلے ہی دلِ سوختہ سر جان بلب ہے […]

ائے چشمِ ناشناس ، ترا گلہ ، کہ تو

واقف کہاں رہی تھی جمالِ جنون سے ائے عہدِ ناسپاس ، تجھے کیا کہیں کہ ہم خود بھی دھواں دھواں تھے کمالِ جنون سے ائے وائے انحطاطِ تمنا ، یہ حال ہے ہوتے ہیں شرمسار ، سوالِ جنون سے ہم کہ سوارِ ناقہِ وحشت ہوئے ، سو ہم رستوں میں کھو گئے ہیں زوالِ جنون […]

آئینہِ خیال شکستہ ضرور ہے

لیکن ترے نقوش سلامت ہیں آج بھی مانا کہ کوئی نام مکمل نہیں رہا کچھ حرف لوحِ دل پہ عبارت ہیں آج بھی ناپید ہو چکے ہیں کنول سرخ رنگ کے لیکن تصورات کی زینت ہیں آج بھی ہے میری شاعری پہ وہ قربان آج بھی میرے سبھی گمان حقیقت ہیں آج بھی