زہے شادی کہ اُو آید، ببیند حالِ من، لیکن

من ایں شادی نمی خواہم کہ اُو غمناک خواہد شد زہے یہ خوشی کہ وہ (میرے پاس) آئے اور میرا حال دیکھے، لیکن میں ایسی خوشی نہیں چاہتا کہ وہ (میرا حال دیکھ کر) غمناک ہو جائے گا

شد طبیبِ ما محبت، منتَش بر جانِ ما

محنتِ ما راحتِ ما، دردِ ما درمانِ ما محبت ہمارے لیے ہمارا طبیب بن گئی ہے اور اٗس کے احسان اور عنایتیں ہماری جان پر ہیں، اور اسی لیے ہمارے غم و رنج و الم ہی ہماری راحت ہیں اور ہمارا درد ہی ہمارا درمان ہے

گر بمستی آرزوئے ابر و باراں می کنم

سنگ می بارد ز ابرِ پنبہ بر مینائے ما اگر کبھی عالمِ مستی میں ابر و باراں کی آرزو کرتا ہوں تو روئی کے گالوں جیسے بادلوں سے بھی میرے جام پر پتھر برسنے لگتے ہیں نہ پوچھ عالمِ برگشتہ طالعی آتش برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے

گفتی ز جنونِ تو و مجنوں چہ تفاوت

رسوائے تو ام، خواہ کم و خواہ برابر تُو نے پوچھا کہ تیرے جنون اور مجنوں کے جنون میں کیا فرق ہے؟ (مجھے کیا علم کہ) مجھے تو تیرے ہی عشق نے رسوا کیا میں تو تیرا ہی رسوا ہوں، اب چاہے میرا جنون مجنوں کے جنوں سے کم ہو چاہے برابر

ہر گُل از روئے تو یادم داد و آتش زد بہ دل

ایں ہمہ گُلہا کہ دیدم خار بُودے کاشکے ہر ایک پھول نے مجھے تیرے چہرے کی یاد دلا دی اور میرے دل میں آگ لگا دی اے کاش کہ یہ سارے پھول جو میں نے دیکھے، پھول نہ ہوتے بلکہ کانٹے ہوتے