زہے شادی کہ اُو آید، ببیند حالِ من، لیکن
من ایں شادی نمی خواہم کہ اُو غمناک خواہد شد زہے یہ خوشی کہ وہ (میرے پاس) آئے اور میرا حال دیکھے، لیکن میں ایسی خوشی نہیں چاہتا کہ وہ (میرا حال دیکھ کر) غمناک ہو جائے گا
معلیٰ
من ایں شادی نمی خواہم کہ اُو غمناک خواہد شد زہے یہ خوشی کہ وہ (میرے پاس) آئے اور میرا حال دیکھے، لیکن میں ایسی خوشی نہیں چاہتا کہ وہ (میرا حال دیکھ کر) غمناک ہو جائے گا
محنتِ ما راحتِ ما، دردِ ما درمانِ ما محبت ہمارے لیے ہمارا طبیب بن گئی ہے اور اٗس کے احسان اور عنایتیں ہماری جان پر ہیں، اور اسی لیے ہمارے غم و رنج و الم ہی ہماری راحت ہیں اور ہمارا درد ہی ہمارا درمان ہے
کہ ہم کفر و ہم ایمانش تو باشی کسی بیدل (عاشق) سے کفر و ایمان کے متعلق مت پوچھ کہ اُس کا کفر بھی اور اُس کا ایمان بھی بس تُو ہی تُو ہوتا ہے
چہ سود از آنکہ بشاخِ گُل آشیاں دارم نہ ذوقِ نغمہ رکھتا ہوں اور نہ ہی مجھے آہ و فغاں کی آزادی ہے،کیا فائدہ اِس سے کہ میرا آشیاں شاخِ گُل پر ہے
سعادتِ ابد و عمرِ جاوداں دارد وہ کہ جو وفادار اور مہرباں دوست رکھتا ہے وہ ابدی سعادت اور جاودانی عمر رکھتا ہے
دامنِ دریا گرفتارِ خس و خاشاک نیست دنیا والوں کے ساتھ ہماری دل بستگی کیسے ہو کہ دریا کا دامن کبھی خس و خاشاک (گھاس پھونس) میں نہیں اُلجھتا
سنگ می بارد ز ابرِ پنبہ بر مینائے ما اگر کبھی عالمِ مستی میں ابر و باراں کی آرزو کرتا ہوں تو روئی کے گالوں جیسے بادلوں سے بھی میرے جام پر پتھر برسنے لگتے ہیں نہ پوچھ عالمِ برگشتہ طالعی آتش برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے
گفتا کہ ایں خرابہ کجا منزلِ من است میں نے کہا کہ میرے دل کے سوا کسی اور کے دل میں مت جا، اُس نے کہا کہ یہ ویرانہ کہاں میری منزل ہے
رسوائے تو ام، خواہ کم و خواہ برابر تُو نے پوچھا کہ تیرے جنون اور مجنوں کے جنون میں کیا فرق ہے؟ (مجھے کیا علم کہ) مجھے تو تیرے ہی عشق نے رسوا کیا میں تو تیرا ہی رسوا ہوں، اب چاہے میرا جنون مجنوں کے جنوں سے کم ہو چاہے برابر
ایں ہمہ گُلہا کہ دیدم خار بُودے کاشکے ہر ایک پھول نے مجھے تیرے چہرے کی یاد دلا دی اور میرے دل میں آگ لگا دی اے کاش کہ یہ سارے پھول جو میں نے دیکھے، پھول نہ ہوتے بلکہ کانٹے ہوتے