گر بَرَود جانِ ما، در طلبِ وصلِ دوست
حیف نباشد کہ دوست، دوست تر از جانِ ماست اگر وصلِ دوست کی طلب میں ہماری جان بھی چلی جائے تو کوئی دکھ کوئی افسوس نہیں کہ دوست، ہماری جان سے بھی دوست تر ہے
معلیٰ
حیف نباشد کہ دوست، دوست تر از جانِ ماست اگر وصلِ دوست کی طلب میں ہماری جان بھی چلی جائے تو کوئی دکھ کوئی افسوس نہیں کہ دوست، ہماری جان سے بھی دوست تر ہے
ور بکمانِ ابرواں، تیر زنی نشانہ ام اگر تُو (لطف و عنایت سے) اپنے غلاموں کی قطار میں مجھے جگہ دے تو میں (ہاتھ باندھے) کھڑا ہوں، اور اگر (جور و جفا سے) تُو اپنے ابروؤں کی کمان سے تیر چلائے تو میں نشانہ بنا کھڑا ہوں
بعد مُردن بر مزارش کور بینا می شود ہر وہ شخص کہ جسے (بجائے دوسروں کے عیب دیکھنے کے) اپنے عیب اور اپنی خامیاں دیکھنے کی توفیق دے دی گئی، مرنے کے بعد اُس کے مزار پر اندھے بھی دیکھنے والے بن جاتے ہیں۔ یعنی دوسروں کو بھی اپنے اپنے عیب دیکھنے کی توفیق مل […]
درمیانِ عاشقاں نامے نداشت ہر وہ کہ جس نے اُس کی راہوں میں (منزلوں کے) نشان (اور اپنے آپ) کو گم نہ کیا، عاشقوں کے درمیان اُس کا کوئی نام، کوئی قدر و منزلت نہیں
بخاطرت گذرد کایں گدا اسیرِ منست میری یہی سعادت میرے لیے بہت ہے کہ تُو جب کبھی مجھے دیکھتا ہے تو تیرے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ یہ فقیر میرا ہی اسیر ہے
آتشِ سوزاں بچشمِ کودکِ ناداں زر است اہلِ دنیا، اپنی کم عقلی اور بے دانشی کی وجہ سے شان و شوکت و عزت و مرتبے و جاہ و جلال کے عاشق ہیں، جیسے کہ نادان بچے کو جلانے والی چمکتی ہوئی آگ بھی سونا ہی نظر آتی ہے
کہ ہر جا جنسِ سنگی ہست، باشد دشمنِ مینا تلخ اور درشت الفاظ سے دلوں کے لیے زحمت اور تکلیف مت بن کہ جہاں بھی پتھر کی طرح کی جو بھی چیز ہوتی ہے وہ شیشے کی دشمن ہی ہوتی ہے
بے تو گر یک لحظہ خود را زندہ باور می کنم موت، مجھ غافل کی فہم و فراست پر ابد تک ہنستی رہے گی، اگر میں تیرے بغیر خود کو ایک لمحے کے لیے بھی زندہ خیال کروں تو
غریبم، بے نوایم، خانہ ویرانم، پریشانم نہیں جانتا کہ عشق مجھ بیدل سے اِس سے زیادہ اور کیا چاہتا ہے کہ (پہلے ہی اس عشق میں) غریب الوطن (در بدر) ہوں، بے نوا ہوں، خانہ ویراں ہوں، پریشاں ہوں
ایں آتشِ عشق است، نسوزد ہمہ کس را اہلِ ہوس (محبت کے جھوٹے دعوے داروں) کو محبت کے سوز اور جلن کی کیا خبر اور اس کا علم کیسے ہو؟ کہ یہ عشق کی آگ ہے یہ ہر کسی، ہر کہ و مہ کو نہیں جلاتی۔