اہلی مگو کہ عقل و دل و دیں ز دست رفت

فارغ نشیں کہ بر دہِ ویراں خراج نیست اہلی، یہ مت کہہ کہ (عشق کی وجہ سے) عقل و دل و دین سب کچھ چلا گیا (اور عشق نے مجھے ویران کر دیا) بلکہ مطمئن ہو جا کیونکہ ویران زمین پر کسی بھی قسم کا کوئی خراج نہیں ہوتا یہ شعر بالخصوص پہلا مصرع تغیرات […]

عالمِ دیگر بہ دست آور کہ در زیرِ فلک

گر ہزاراں سال می مانی ہمیں روز و شب است اگر تُو تغیر و تبدیلی چاہتا ہے تو کوئی نیا جہان پیدا کر کیونکہ اِس آسمان کے تلے اگر تُو ہزاروں سال بھی زندہ رہے گا تو یہی شب و روز ہونگے

می نمایند ہمی گنبدِ دستارِ سفید

لیک غافل ز درونہائے سیہ کارِ خودند (ریا کار) اپنی اس سفید دستار کے گنبد کی تو بہت نمائش کرتے ہیں اور اسے نمایاں کرتے ہیں لیکن اس کے اندر، اپنی سیاہ کاریوں سے مکمل طور پر غافل ہیں

پادشاہاں را جہاں بخشید و ما را مہرِ خود

دیگراں را سنگ و ما را در ترازو زر نہاد بادشاہوں کو دنیا جہان بخشا اور ہمیں اپنی محبت دے دی، گویا اوروں کو تو (دنیا دے کر) پتھروں سے تولا اور ہمیں (اپنی محبت دے کر) سونے چاندی سے تول دیا

چنانم در دِلے حاضر کہ جاں در جسم و خوں در رگ

فراموشم نہ ای وقتے کہ دیگر وقت یاد آئی تُو (ہر وقت) اس طرح میرے دل میں موجود ہے جیسے جان جسم میں اور خون رگوں میں میں تجھے کسی وقت بھُولا ہی نہیں کہ کسی دوسرے وقت میں یاد آئے