مہر در عہدَت چناں کم شد کہ باو می کنم

گر کسی گوید کہ با یوسف زلیخا دشمن است (اے محبوب) تیرے عہد میں مہر و وفا و عشق و محبت کا ایسا کال پڑا ہے کہ اگر کوئی کہتا ہے کہ زلیخا یوسف کی دشمن ہے تو میں (ایسی محال بات کا بھی) یقین کر لیتا ہوں

نہ اینجا دست بر سر بلکہ سر بر دست می باشد

بہ بزمت عاشقِ دیوانہ آدابے دگر دارد یہاں (محبوب کی بزم میں) ہاتھ سر پر (رکھ کر واویلا) نہیں ہوتا، بلکہ ہاتھ میں سر (رکھ کر ہیش) ہوتا ہے، تیری بزم میں عاشق دیوانوں کے کچھ اور ہی آداب ہوتے ہیں

چرخِ ظالم دوست چوں عاجز کُشی را سر کند

تیر را پرواز بخشد، مُرغ را بے پر کند ظالموں کا دوست آسمان جب عاجزوں کو مارنے پر آتا ہے تو (ظلم کی انتہا کرتے ہوئے ظالم کے) تیر کو (شکار کے لیے پرواز بخش دیتا ہے اور پرندے بیچارے کو آسانی سے شکار ہو جانے کے لیے)بے پر کر دیتا ہے

گر عدل کُنی برِّ جہانت خوانند

ور ظلم کنی سگِ عوانت خوانند چشمِ خردت باز کن و نیک ببیں تا زیں دو کدام بہ کہ آنت خوانند (اے صاحبِ اختیار و اقتدار) اگر تُو عدل کرے گا تو تجھے سارے جہان سے زیادہ نیک کہیں گے اور اگر تُو ظلم کرے گا تو تجھے خونخوار، سخت گیر کتا کہیں گے۔ ذرا […]