سحر گاہی دُعا کردم کہ جانم خاکِ پائے اُو

شنیدم نعرۂ آمیں ز جان اندر دُعائے من سحر کے وقت میں نے دُعا کی کہ میری جان اُس کے قدموں کی خاک ہو جائے، اپنی دُعا کے اندر ہی میں نے آمین کا نعرہ سُنا اور یہ آمین کا نعرہ جان نے لگایا تھا

عشقِ تو کہ سرمایۂ ایں درویش است

ز اندازۂ ہر ہوس پرستے بیش است شورے است کہ از ازل مرا در سر بُود کارے است کہ تا ابد مرا در پیش است تیرا عشق کہ یہ اِس درویش کا (کُل) سرمایہ ہے اور یہ سرمایہ اتنا ہے کہ ہر ہوس پرست کے اندازوں سے زیادہ ہے۔ تیرے عشق کا جنون، ایسا جنون […]

آوازۂ عشقِ من بہ ہر خانہ رسید

دردِ دلِ من بخویش و بیگانہ رسید اندر غمِ عشقِ تو بہر جا کہ رَوَم از دُور بگویند کہ دیوانہ رسید میرے عشق کا چرچا گھر گھر تک پہنچ گیا اور میرے دل کے درد سے اپنے بیگانے سبھی آشنا ہو گئے تیرے عشق کے غم میں (مارا مارا) میں جہاں کہیں بھی جاتا ہوں […]

از بارِ گُنہ شد تنِ مسکینم پست

یا رب چہ شود اگر مرا گیری دست گر در عملم آنچہ ترا شاید، نیست اندر کرمت آنچہ مرا باید، ہست گناہوں کے بوجھ سے مجھ مسکین کا تن پست ہو چکا ہے یا رب کیا ہو اگر تُو اس حالت میں میری دست گیری کرے کیونکہ اگر میرے عملوں میں وہ کچھ نہیں ہے […]

بر گذرم ز نُہ فلک، گر گذری بہ کوئے من

بر گذرم ز *نُہ فلک، گر گذری بہ کوئے من پائے نہم بر آسماں، گر بہ سرم اماں دہی میں نو آسمانوں سے (بھی آگے) گزر جاؤں اگر تُو کبھی میرے کوچے میں سے گزرے اور میرے پاؤں آسمان پر جا پڑیں اگر تو میرے سر کو امان اور اطمینان دے دے نُہ فلک۔ نو […]