چو سائل برسرِ آں کُو نہ بہرِ نان می آیم

چو مُوسیٰ برسرِ طُور از پئے دیدار می گردم میں اُس کوچے میں سوالی اور فقیروں کی طرح روٹی مانگنے نہیں آتا بلکہ اُس کے کوچے میں اُس کے دیدار کے لیے اُسی طرح گھومتا ہوں جیسے مُوسیٰ کوہِ طُور پر دیدار کے لیے جاتے تھے

یا رب تو چناں کن کہ پریشاں نشوم

محتاجِ برادراں و خویشاں نشوم بے منتِ خلق خود مرا روزی دہ تا از درِ تو بر درِ ایشاں نشوم یا رب، تُو ایسا کرم کر میں پریشان نہ ہوں اور در در مارا مارا نہ پھروں اور برادران اور اپنے (بیگانوں) کا محتاج نہ ہو جاؤں۔ لوگوں کا احسان اُٹھائے بغیر، تو مجھے خود […]

آفاق را گردیدہ ام، مہرِ بُتاں ورزیدہ ام

بسیار خوباں دیدہ ام، اما تو چیزے دیگری میں ملکوں ملکوں گھوما ہوں، محبوب لوگوں کی محبت میں بھی اُلجھا ہوں، بہت سے حسین بھی دیکھے ہیں، مگر تو سب سے الگ، کوئی اور ہی چیز ہے

آنچہ پُر جستیم کم دیدیم و درکار است و نیست

نیست جز آدم دریں عالم کہ بسیار است و نیست وہ کہ جو ہم بہت ڈھونڈتے ہیں مگر اُسے کم کم دیکھتے ہیں اور جو درکار ہے مگر نہیں ملتا، آدمیوں کے سوا اس دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں کہ جو بہت سے ہیں مگر نہیں ہیں

آں کس کہ ز چرخ نیم نانے دارد

وز بہرِ مقام آشیانے دارد نے طالبِ کس بوَد نہ مطلوبِ کسے گو شاد بزی کہ خوش جہانے دارد وہ کہ جسے کھانے کے لیے آسمان سے تھوڑی سی روٹی مل جاتی ہے اور سر چُھپانے کے لیے اُس کے پاس ایک ٹھکانہ ہے، جو نہ کسی کا طالب ہے اور نہ ہی کسی کا […]