رات پیاسا تھا میرے لوہو کا

ہوں دوانہ ترے سگ کو کا شعلۂ آہ جوں توں اب مجھ کو فکر ہے اپنے ہر بن مو کا ہے مرے یار کی مسوں کا رشک کشتہ ہوں سبزۂ لب جو کا بوسہ دینا مجھے نہ کر موقوف ہے وظیفہ یہی دعا گو کا میں نے تلوار سے ہرن مارے عشق کر تیری چشم […]

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں تو شاہیں ہے پرواز ہے کام […]

عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی

اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی کانپ اٹھتی ہوں میں یہ سوچ کے تنہائی میں میرے چہرے پہ ترا نام نہ پڑھ لے کوئی جس طرح خواب مرے ہو گئے ریزہ ریزہ اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کے بکھرے کوئی میں تو اس دن سے ہراساں ہوں کہ جب حکم ملے […]

میرے سنگ مزار پر فرہاد

رکھ کے تیشہ کہے ہے یا استاد ہم سے بن مرگ کیا جدا ہو ملال جان کے ساتھ ہے دل ناشاد موند آنکھیں سفر عدم کا کر بس ہے دیکھا نہ عالم ایجاد فکر تعمیر میں نہ رہ منعم زندگانی کی کچھ بھی ہے بنیاد خاک بھی سر پہ ڈالنے کو نہیں کس خرابے میں […]

وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا

وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے ایک جھونکا ہے جو آئے گا گزر جائے گا […]

چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا

عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا اے مری گل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی اہل کتاب نے مگر کیا ترا حال کر دیا ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کر دیا اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامن […]

کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں

کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں طرب آشنائے خروش ہو تو نوا ہے محرم گوش ہو وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوت پردۂ ساز میں تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئنہ ہے وہ آئنہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئنہ ساز میں دم […]

کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی

اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی تیرا پہلو ترے دل کی طرح آباد رہے تجھ پہ گزرے […]

کوئی امید بر نہیں آتی

کوئی صورت نظر نہیں آتی موت کا ایک دن معین ہے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی اب کسی بات پر نہیں آتی جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد پر طبیعت ادھر نہیں آتی ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں ورنہ کیا بات کر نہیں آتی […]

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے ڈرے کیوں میرا قاتل کیا رہے گا اس کی گردن پر وہ خوں جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بدم نکلے نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے بھرم کھل جائے ظالم […]