اردوئے معلیٰ

Search

کوئی امید بر نہیں آتی

کوئی صورت نظر نہیں آتی

 

موت کا ایک دن معین ہے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

 

آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی

اب کسی بات پر نہیں آتی

 

جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد

پر طبیعت ادھر نہیں آتی

 

ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں

ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

 

کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں

میری آواز گر نہیں آتی

 

داغ دل گر نظر نہیں آتا

بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی

 

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی

کچھ ہماری خبر نہیں آتی

 

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی

موت آتی ہے پر نہیں آتی

 

کعبہ کس منہ سے جاوگے غالبؔ

شرم تم کو مگر نہیں آتی

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ