مری شکست ہی کم سانحہ نہ تھی اس پہ

غرورِ عشق کا ماتم ، الگ قیامت ہے لہو لہو سہی سینہ مگر مبارک ہو میں چھو کے دیکھ چکا ہوں کہ دل سلامت ہے بلندیاں چلو نیزے کی ہی سہی لیکن تمہارا سوختہ سر اب بھی سرو قامت ہے مرے ہی گھر میں جو رہتی ہے ایک مدت سے مری ہی شکل و شباہت […]

بازی گران و شعبدہ بازو، نوید ہو

ہم اپنے معجزات کے ہاتھوں فنا ہوئے ہم بے مثال لوگ تھے کیا مارتا کوئی ہم لوگ اپنی ذات کے ہاتھوں فنا ہوئے چھوٹی سی ایک بات رہی تجھ کو اور ہم چھوٹی سی ایک بات کے ہاتھوں فنا ہوئے حیراں کھڑی ہوئی ہے سرہانے پہ موت بھی ہم ہیں کہ جو حیات کے ہاتھوں […]

نا قابلِ شکست بھلا کون رہ سکا

ہم تھے ، ہمارے خواب تھے، پیمان تھے ترے ابھرا ہے نقشِ مرگ سرِ پردہِ شہود اب کون مانتا ہے کہ امکان تھے ترے ہے اک دفعہ کا ذکر کہ ہوتا تھا ایک دل اور اس کے اختیار میں ارمان تھے ترے ہارے رفو گران بصد عجز آخرش اتنے قبائےعشق پہ احسان تھے ترے تو […]

اس قدر سادہ مزاجی بھی مصیبت ہے جہاں

لوگ طنزاً بھی جو ہنستے ہیں ، بھلے لگتے ہیں سجدہ گاہانِ محبت کی زیارت کیسی ہم تو پاپوشِ محبت کے تلے لگتے ہیں جانے کس پشت کا رشتہ ہے کہ پا کر ہم کو درد بے ساختہ بڑھتے ہیں گلے لگتے ہیں آؤ اس لمحہِ کمیاب میں ڈھونڈو ہم کو غم کے آثار سرِ […]

چند لمحے ہی سہی لیکن ملی ہے زندگی

میں چلو فانی ہوا کیا دائمی ہے زندگی اور ہی کچھ مہرباں ہستی ہے دنیا کے لیے یا مرے حصے میں جو آئی وہی ہے زندگی زندگی کو کس قدر حسرت سے تکتا تھا کبھی آج اک حسرت سے جس کو دیکھتی ہے زندگی دیدہ و دل فرشِ راہِ شوق تھے ، مٹی ہوئے اب […]

وہم و گمان رہ گئے ، وجدان رہ گیا

نازل ہوئے شکوک تو ایمان رہ گیا تیری ریاضتوں نے فرشتہ کیا شکار مجھ میں مرے لیے مرا شیطان رہ گیا عہدِ شکست میں مری پہچان رہ گئی عہدِ شکست ہی مری پہچان رہ گیا تو مانگتا ہے میرا حوالہ ثبوت سے میں ہوں کہ اپنے آُپ کا امکان رہ گیا ہارا ادھیڑ بن سے […]

مانا کہ ہے سفر کا تقاضہ سبک روی

پر تیز رو جنون ، تھکا جا رہا ہوں میں اب کون سوچنے کی مشقت کرے بھلا جاؤ مرے فنون ، تھکا جا رہا ہوں میں کاندھوں پہ جو بنامِ محبت دھرا گیا بھاری ہے وہ ستون ، تھکا جا رہا ہوں میں اک عمر ہو چلی ہے کہ زخموں پہ ہاتھ ہے رکتا نہیں […]

عجب تقسیم کر ڈالا ہے تم نے

میں آدھا گر کے بھی آدھا کھڑا ہوں میں آدھا مر چکا ہوں حادثے میں حضورِ زندگی آدھا کھڑا ہوں مرا آدھا بدن تیرے مخالف میں تیرے ساتھ بھی آدھا کھڑا ہوں بنامِ ضبط آدھا ڈھے گیا تھا بحالِ بے بسی آدھا کھڑا ہوں مجھے مسمار آدھا کر گئے تھے پلٹ آؤ ابھی آدھا کھڑا […]

غم کو شکست دیں کہ شکستوں کا غم کریں

ہم بندگانِ عشق عجب مخمصے میں ہیں آزاد کب ہوئے ہیں غلامانِ کم سخن جو طوق تھے گلے میں سو اب بھی گلے میں ہیں تم مل چکے ہو اہلِ ہوس کو، مگر یہ ہم مصروف آج تک بھی تمہیں ڈھونڈنے میں ہیں اک نقشِ آرزو کہ جھلکتا نہیں کہیں یوں تو ہزار عکس ابھی […]

مجھ کو ملے شکست کے احساس سے نجات

ائے کاش دستِ غم مرے پرزے اڑا سکے دل کو سگانِ شہرِ ہوس نوچتے رہے سادہ دلانِ عشق فقط مسکرا سکے ائے کاش کہ فصیل بنے کربِ مرگِ دل تو بھی مرے قریب جو آئے نہ آ سکے جادو گرانِ شوق نے کر لی ہے خودکشی کم بخت عمر بھر میں یہ کرتب دکھا سکے […]