کچھ ہوا حاصل نہ اب تک کوششِ بیکار سے

دیکھ لیں گے سر بھی ٹکرا کر در و دیوار سے سیدھے سادے راستے پر کیا اٹھائیں ہم قدم پاؤں لپٹے جا رہے ہیں راہِ ناہموار سے اک ذرا سی نیند آئی تھی کہ پھر چونکا دیا تنگ ہم تو آ گئے اپنے دلِ بیدار سے ناز تھا جن کارناموں پر کبھی ہم کو بہت […]

میں اگر لازوال ہو جاتا

میرا جینا محال ہو جاتا آئینہ سامنے نہ تھا ورنہ وہ مرا ہم خیال ہو جاتا مجھ سے اپنا ضمیر بک نہ سکا ورنہ آسودہ حال ہو جاتا مجھ کو حسرت رہی کہ دنیا میں کوئی تو ہم خیال ہو جاتا وہ تو کہیے تری مثال نہ تھی ورنہ میں بے مثال ہو جاتا

میں اپنی زندگی اس شان سے تحریر کرتا ہوں

کہ یوں لگتا ہے جیسے حسن کی تفسیر کرتا ہوں کسی کی بھی کبھی تقلید بھولے سے نہیں کرتا جو کچھ دل پر گزرتا ہے وہی تحریر کرتا ہوں پریشاں میں رہوں دنیا پریشانی سے بچ جائے ٹھہر اے گردشِ دوراں تجھے زنجیر کرتا ہوں مری تقدیر کے لکھے پہ دنیا خندہ زن کیوں ہے […]

عشق کا گر مرید ہو جائے

علم ، خواجہ فرید ہو جائے آگہی کے نگار خانے میں روشنی کچھ مزید ہو جائے پھر دوکانیں سجی ہیں زخموں کی آؤ پھر کچھ خرید ہو جائے دل کی جنت کو پھونکنے والے تو جہنم رسید ہو جائے کیا جیئیں اہلِ حق وہاں کہ جہاں لمحہ لمحہ یزید ہو جائے رمزِ لاتقنطو کا متوالا […]

راہ چلیے تو یہاں دیر و حرم اتنے ہیں

کس کو پوجیں کہ خدا ساز صنم اتنے ہیں اب کوئی اُٹھے بہ اندازِ دگر تیشہ بدست کاٹے کٹتے ہیں نہیں کوہِ الم اتنے ہیں تازہ احسانِ ستم ، طُرفہ عنایت ہے تری ورنہ ہونے کو ترے لطف و کرم اتنے ہیں یہ بھی کیا کم ہے کہ جینے کی طرح جیتا ہوں ورنہ مرنے […]

ہونے کو آستانِ حرم بھی قریب تھا

ہم دار تک گئے یہ ہمارا نصیب تھا میرے ہی حسنِ شوق نے رسوا کیا مجھے میرا جنونِ عشق ہی میرا رقیب تھا اب تک ہے جان و دل پہ مصیبت بنی ہوئی وہ حادثۂ زیست بھی کتنا عجیب تھا اوروں کو بارِ غم سے سبکدوش کر گیا وہ جس کے دوشِ عزم پہ بارِ […]

اور کیا روز جزا دے گا مجھے

زندہ رہنے کی سزا دے گا مجھے زخم ہی زخم ہوں میں داغ ہی داغ کون پھولوں کی قبا دے گا مجھے میں سمجھتا ہوں زمانے کا مزاج وہ بنائے گا مٹا دے گا مجھے بے کراں صدیوں کا سناٹا ہوں میں کون سا لمحہ صدا دے گا مجھے ٹوٹ کر لوح و قلم کی […]

خود کو ہم آپ بھی یہ روگ لگانے لگ جائیں

جو ملے ہنس کے اُسے دل میں بسانے لگ جائیں کیا ستمگار ہیں جو مہر و محبت کے چراغ خود ہی روشن بھی کریں خود ہی بجھانے لگ جائیں یہ سمجھ لو کہ غمِ ہجر کا موسم ہے قریب لوگ جب تم سے بہت پیار جتانے لگ جائیں کوئی دو چار قدم بھی جو چلے […]

وار دنیا کا چل نہ جائے کہیں

تو بھی ہم سے بدل نہ جائے کہیں وہ پشیماں تو لازماََ ہو گا شوق کی عمر ڈھل نہ جائے کہیں اے غمِ یار تیری عمر دراز میری آہوں سے جل نہ جائے کہیں چُپ تو بیٹھے ہیں سامنے اُس کے کوئی آنسو نکل نہ جائے کہیں اُس نے وعدہ کیا کل آنے کا کل […]

کچھ اس ادا سے کچھ ایسے ہنر سے اترے گا

کہ عمر بھر نہ وہ قلب و نظر سے اترے گا عروج پر ہے تمازت دکھوں کے سورج کی نجانے کب یہ مرے بام و در سے اترے گا نجانے ختم ہو کب بے جہت سفر یارو نجانے بوجھ یہ کب اپنے سر سے اترے گا مرے خیال میں یہ انتہائے گریہ ہے اب اس […]