جھونکا چلا قضا کا تو چپکے سے سو گئے

آیا جو کاروانِ اجل ساتھ ہو گئے جس قافلے کے ساتھ ہی چلتا رہے گا وہ منزل جب اپنی آئی الگ ہو کے کھو گئے اس بحر میں تلاطم و طغیاں کا زور تھا ساحل نظر نہ آیا تو کشتی ڈبو گئے ہم نے وفا میں کوئی کمی کی نہیں مگر ہم کیا کریں کہ […]

اس کارزارِ زیست میں تنگ آ گئے ہیں ہم

لے کر اجل کی تیغ و خدنگ آ گئے ہیں ہم یاروں سے کی وفا تو جفا کا ، ملا فریب سکرات میں بہ عرصہ بنگ آ گئے ہیں ہم جو آئینہ غبار و کدورت سے پاک تھا اس پر بھی اب جو لگ گیا زنگ آ گئے ہیں ہم نقش بر آب تھے تو […]

چھلکی جو مئے تو بن کے شرر گونجتی رہی

مینا سے تابہ ساغر زر گونجتی رہی بادل کی سی گرج تھی یہ دنیا کہیں جسے جو درمیانِ شمس و قمر گونجتی رہی تھی جو دعا وہ ابر کے دامن میں چُھپ گئی جو بددعا تھی بن کے اثر گونجتی رہی آئی خزاں طیور تو جتنے تھے اُڑ گئے نغموں سے پھر بھی شاخِ شجر […]

چھپ گیا سورج یہ کہہ کر شام سے

لے سبق دنیا مرے انجام سے روح کو ہم نے ہزاروں دکھ دئے نفس کو رکھا بڑے آرام سے ایک بازیچہ سمجھ کر اہل دل کھیلتے ہیں گردش ایام سے سوچئے ہر زاویے سے دہر میں کیسے گزرے زندگی آرام سے کر دیا ساقی نے ساغر چور چور چھین کر اک رند تشنہ کام سے […]

جس کو چھوٹوں سے پیار ہوتا ہے

وہ بڑا باوقار ہوتا ہے اس کا جینا بھی ہے کوئی جینا جو بروں میں شمار ہوتا ہے بے ادب ہر جگہ ہے بے عزت باادب باوقار ہوتا ہے اس سے ہوتی ہے سب کو ہمدردی خود بھی جو غم گسار ہوتا ہے بول کر جھوٹ وہ خدا جانے کس لئے شرمسار ہوتا ہے دوسروں […]

دست نازک سے جو پردے کو سنوارا تم نے

میں یہ سمجھا کہ نوازش سے پکارا تم نے کیا حقیقت میں غم عشق سے مانوس ہوئے یا یوں ہی پوچھ لیا حال ہمارا تم نے میرے مکتوب محبت مجھے واپس دے کر کر لی تو ہے یہ محبت بھی گوارا تم نے نسبتاً آج حجابوں میں اضافہ کیسا غالباً جان لیا دل کا اشارا […]

یہاں کسی سے مزاجِ فغاں نہیں ملتا

زمیں ملے تو ملے آسماں نہیں ملتا ہزار سعیِ مسلسل بقدرِ شوق سہی مکاں تو ملتے رہے لامکاں نہیں ملتا ہمیں کو حیف نہیں ذوقِ دید و شوقِ نظر وہ کس جگہ نہیں ملتا کہاں نہیں ملتا مذاقِ درد پسندیِ دل ملول نہ ہو کمی ہے غم کی کہاں ، کہاں نہیں ملتا فراق و […]

باتیں ہیں اُجلی اُجلی اور من اندر سے کالے ہیں

اس نگری کے سارے چہرے اپنے دیکھے بھالے ہیں نینوں میں کاجل کے ڈورے رُخ پہ زلف کے ہالے ہیں من مایا کو لوٹنے والے کتنے بھولے بھالے ہیں تم پر تو اے ہم نفسو! کچھ جبر نہیں، تم تو بولو ہم تو چپ سادھے بیٹھے ہیں اور زباں پر تالے ہیں آنکھوں میں روشن […]

مثال سادہ ورق تھا مگر کتاب میں تھا

وہ دن بھی تھے میں ترے عشق کے نصاب میں تھا بھلا چکا ہے تو اک بار مجھ سے آ کر سن وہی سبق جو کبھی تیرے دل کے باب میں تھا جو آج مجھ سے بچھڑ کر بڑے سکون میں ہے کبھی وہ شخص مرے واسطے عذاب میں تھا اسی نے مجھ کو غم […]

وہ جو مبتلا ہے محبتوں کے عذاب میں

کوئی پھوٹتا ہوا آبلہ ہے حباب میں مرا عشق شرط وصال سے رہے متصل نہیں دیکھنا مجھے خواب شب شب خواب میں جو کشید کرنے کا حوصلہ ہے تو کیجئے کہ ہزار طرح کی راحتیں ہیں عذاب میں یہ طواف کعبہ یہ بوسہ سنگ سیاہ کا یہ تلاش اب بھی ہے پتھروں کے حجاب میں […]