چوٹ اس کے عشق کی ہے جو دل پر لگی ہوئی

تا مرگ یہ رہے گی برابر لگی ہوئی شکوے تو ہیں ہزاروں مگر اُن کے روبرو مہر سکوت ہے مرے لب پر لگی ہوئی سوزِ الم نے دل کو جگر کو جلا دیا اے ہم نفس یہ آگ ہے گھر گھر لگی ہوئی اے فوقؔ دُختِ رند کو کہوں کیا بقولِ ذوقؔ چُھٹتی نہیں ہے […]

آنکھیں کھلیں تو مائلِ پندار کیوں ہوئے

غفلت ہی ہم کو خوب تھی ہشیار کیوں ہوئے پوچھا یہ کیا ؟ ہمارے طلبگار کیوں ہوئے یہ کہیے آپ اتنے طرحدار کیوں ہوئے غافل یہ شرحِ عشق کی گر پیروی نہیں منصور جیسے زیب سرِ دار کیوں ہوئے حیرت نے کی زباں جو دمِ عرض حال بند بولے کہ چُپ ترے لبِ اظہار کیوں […]

جیسے مہک اڑے کبھی گل سے صبا کے ساتھ

مجھ سے بچھڑ گیا وہ مگر کس ادا کے ساتھ شعلہ تو ایک پل نہ تہہ آب رہ سکے میں ہوں کہ عمر کاٹ دی اس بے وفا کے ساتھ یوں ہاتھ سے گیا وہ کبھی پھر نہیں ملا اک عمر بھاگتا رہا گو میں ہوا کے ساتھ جو آنکھ دی تو دیکھنا بھی فرض […]

سفید جسم مہکتی ہواؤں جیسا ہے

وہ چہرہ زرد ہے پھر بھی شعاعوں جیسا ہے نہ جانے کون سا جھونکا کدھر کو لے جائے مرا سفر تو بھٹکتی صداؤں جیسا ہے تھا ایک میرا بھی سورج ، سو وہ تو ڈوب گیا یہ جسم اب تو اندھیری گپھاؤں جیسا ہے میں اپنے آپ سے سہما ہوا ہوں ڈرتا ہوں ہے کون […]

گو اپنی قید میں پیارے ہم اتنے سال رہے

تیرے خیال سے لیکن نہ بے خیال رہے وہ آںکھ ہی نہ ملی جو کہ دیکھ بھی سکتی ہر اک جواب کے پیچھے کئی سوال رہے میں تجھ کو دیکھوں تو پھر لمبی تان کے سو جاؤں کہ حشر تک میرا ساتھی ترا جمال رہے جو سہہ نہ سکتا ہو اپنے زوال کا صدمہ یہ […]

عجب خود آگہی کے مرحلے ہیں

ہم اپنے سامنے حیراں کھڑے ہیں مری آنکھیں تو پیاسی ہیں سحر کی ستارے کیوں اُترتے آ رہے ہیں نہیں، یہ خواب کا عالم نہیں ہے یہ سب منظر تو جیتے جاگتے ہیں دیارِ شب کے سنّاٹے میں ہم نے نگارِ صبح کے نغمے سُنے ہیں ابھی کچھ رنگ ہیں دِل بستگی کے ابھی کچھ […]

موجوں کا سانس ہے لبِ دریا رکا ہوا

شاید ابھر رہا ہے کوئی ڈوبتا ہوا بیٹھا ہے عشق یوں سرِ منزل تھکا ہوا رستے میں جیسے کوئی مسافر لٹا ہوا کچھ دن سے رنگِ روئے جفا ہے اڑا ہوا اے خونِ آرزو تری سرخی کو کیا ہوا کیا منزلت ہے اپنی سرِ آستانِ دوست جیسے ہو راہ میں کوئی پتھر پڑا ہوا آنکھوں […]

جو تم ٹھہرو تو ہم آواز دیں عمرِ‌ گریزاں کو

ابھی اک اور نشتر کی ضرورت ہے رگِ جاں کو کبھی ہم نے بھی رنگ و نور کی محفل سجائی تھی کبھی ہم بھی سمجھتے تھے چمن اک رُوئے خنداں کو کبھی ہم پر بھی یونہی فصلِ گل کا سحر طاری تھا کبھی ہم بھی جنوں کا حق سمجھتے تھے گریباں کو کہیں ایسا نہ […]

سستا خرید لو کبھی مہنگا خرید لو

میلہ لگا ہے ، مرضی کا سودا خرید لو رستہ تمہیں نہ دے گی یہ تنہائیوں کی بھیڑ اک ہم سفر خرید لو ، سایا خرید لو اک پھول ، اک ڈھلکتے ہوئے اشک کے عوض چاہو تو میرے پیار کی دنیا خرید لو بھاؤ بتا رہی ہے یہی بانسری کی تان جاں دے سکو […]

یوں لگتا ہے اٹھتا ہوا طوفان وہی ہے

کشتی کو سنبھالو کہ پھر امکان وہی ہے مائل وہ ہوئے بھی ہیں تو کس طرح میں جانوں یارو درِ دولت پہ تو دربان وہی ہے اس دور کے انساں پہ نئی رائے نہ تھوپو اچھا یا برا جیسا ہے انسان وہی ہے اس بار بہاروں میں کمی تو نہ تھی لیکن گلشن کے مہک […]