تمہاری تصویر ہم مسلسل ہی تک رہے ہیں

ہماری آنکھوں سے اشک بے حد ٹپک رہے ہیں ہم اشتباہا عجیب بستی میں آ گئے ہیں کہ لوگ اک دوسرے کے عیبوں کو ڈھک رہے ہیں ہمارے آنگن میں سنگ باری ہوئی شجر پر تو ہم نے جانا کہ پھل درختوں کے پک رہے ہیں خود ان میں جلتے رہیں گے پل پل کہ […]

نگاہ چشم قاتل کو نشانہ چاہئے تھا

نشانہ بھی کوئی مجھ سا دوانہ چاہئے تھا گھنے جنگل میں اے برق تپاں کچھ تو بتا دے جلانے کو مرا ہی آشیانہ چاہئے تھا حقائق تھے پرانے ان سے پردہ کیا اٹھاتا کہ اہل شہر کو تازہ فسانہ چاہئے تھا تمہاری زلف کی چھاؤں تلے ہم کیوں نہ آتے بلا کی دھوپ میں اک […]

کب میسر ہے ہمیں اپنا سہارا ہونا

کس قدر بانٹ گیا ہم کو تمہارا ہونا میں ، مرا کمرہ ، تری یاد ، سلگتا سگرٹ کیا اسی چیز کو کہتے ہیں گزارہ ہونا وہ مرے بعد بھی خوش ہو گا کسی اور کے ساتھ میٹھے چشموں کو کہاں آتا ہے کھارا ہونا تو محبت کا ہے تاجر تو یقیں کر تجھ سے […]

کوئی ہم نفس نہیں ہے ، کوئی چارہ گر نہیں ہے

نہیں اس طرف ہے کوئی وہ نظر جدھر نہیں ہے ترا غم ، تری محبت ، ہے جبینِ دل کا مرکز مرا ذوقِ سجدہ ریزی ابھی دربدر نہیں ہے نہیں دل ہے دل وہ جس میں تری یاد ہو نہ باقی جو اٹھے نہ تیری جانب وہ نظر نظر نہیں ہے مرا حال غم سنا […]

جن پر تری نگاہ پڑی وہ سنور گئے

جن سے تری نگاہ پھری وہ بکھر گئے اس دور پر ملال میں آئے گی کیا ہنسی خنداں لبی کے یار زمانے گذر گئے منزل تمام عمر نہیں مل سکی انہیں رستے میں پا کے چھاؤں کہیں جو ٹھہر گئے آلامِ زندگی میں مزہ زندگی کا ہے وہ کیا جیئیں گے جو غمِ دوراں سے […]

ہوتا ہے بازگشت میں جیسے صدا کے ساتھ

میرے قدم قدم پہ سزا تھی سزا کے ساتھ اِک طاق پر چراغ جلانے کی چاہ میں کرنی پڑی ہے دوستی ہم کو ہوا کے ساتھ سوتا ہوں روز رات کو آغوشِ آہ میں ہر صبح جاگتا ہوں کسی بدعا کے ساتھ کیسے کرو گے اُس کی وفا کا یقین تم کوئی جو چل پڑا […]

کوئی اپنی جھلک دِکھلا گیا ہے

مِرا اندر تلک مہکا گیا ہے وہ جو روشن تھا میرے فن کا سورج جُدائی میں تِری گہنا گیا ہے عقیدت ہو گئی بدنام ناحق نہ تیرا کچھ ، نہ کچھ میرا گیا ہے سکونِ قلب ، کاروبار ، شہرت تمہارے واسطے کیا کیا گیا ہے اچانک رُک گئی ہے زندگی کیوں؟ مجھے اِک نقطے […]

خواب ترے جو دل کی پگڈنڈی سے ہٹ جاتے

شاید پلکوں پر اُمڈے یہ بادل چھٹ جاتے میں کچّا رستہ وہ پکّی سڑکوں کا عادی مجھ پر چلتا کیسے پاؤں دھول سے اَٹ جاتے تم نے سوچا ہی کب اپنی انا سے آگے کچھ ورنہ بیچ کے فاصلے گھٹتے گھٹتے گھٹ جاتے صبح سویرے تیرے رستے میں جا بیٹھتے ہم شام سمے تیرے پیچھے […]

کیا پتہ اب منتظر آنکھوں میں بینائی نہ ہو

کیا خبر ہم دستکیں دیں اور شنوائی نہ ہو کیا پتہ بارانِ رحمت کا گذر محلوں سے ہو کیا خبر کچّے مکانوں پر گھٹا چھائی نہ ہو کیا پتہ جل جائیں سورج کی تمازت سے بدن کیا خبر انجام اِس جذبے کا رسوائی نہ ہو کیا پتہ اپنوں میں کوئی رنگ میرا ناں ملے کیا […]

شاخ پر بیٹھا اِک پرندہ تھا

میں جسے اپنا خواب سمجھا تھا دو گھڑی کو وہ پاس ٹھہرا تھا کون جانے وہ شخص کیسا تھا دیکھ آنگن میں تیرے چمکا ہے میری قسمت کا جو ستارہ تھا آج اُس نے بھی خود کشی کر لی جس کو مرنے سے خوف آتا تھا گھُل گئی ساری تلخی لہجے کی چائے کا ذائقہ […]