رنگ شفق سے لے کر جیسے رُخ پہ مَلی ہے شام

اور نکھرتا جاتا ہے وہ جب سے ڈھلی ہے شام دھوپ کنارہ زلفوں میں اور چاندنی گالوں پر ایک افق پر چاند اور سورج! کیسی بھلی ہے شام پت جھڑ جیسے رنگوں میں ہے جگنو جیسی آنچ عمر کی جھکتی ٹہنی پر اک کھِلتی کلی ہے شام رنگ فضا میں بکھرے ہیں اور شہنائی کی […]

اٹھاؤں کیسے میں بارِ گرانِ سجدۂ شوق

کہاں زمین، کہاں آسمانِ سجدۂ شوق نبردِ عشقِ بلا کش کہاں ہوئی ہے تمام ابھی تو دور ہے سر سے امانِ سجدۂ شوق زمانے بھر کو مسلسل فرازِ نیزہ سے سنا رہا ہے کوئی داستانِ سجدۂ شوق حقیقت اس کی مری حسرتِ نیاز سے پوچھ زمانے بھر کو ہے جس پر گمانِ سجدۂ شوق وہ […]

اپنی متاعِ خواب مرے نام کر گیا

اک شخص شہر ہجر میں گمنام مر گیا ترکِ جنون کر کے بیاباں سے گھر گیا بازی نبردِ عشق کی دیوانہ ہر گیا اِس رقص گرد بادِ غم روزگار میں ہر جامۂ لحاظ بدن سے اتر گیا سورج کو سر پہ لاد کے دن بھر چلا تھا میں اُس کو فصیلِ شام پہ چھوڑا تو […]

مشعلِ حرف لئے نور بکف ہو جائیں

کاش ہم اپنے زمانے کا شرف ہو جائیں عقل کہتی ہے چلو ساتھ زمانے کے چلیں ظرف کہتا ہے کہ ہم ایک طرف ہو جائیں دل یہ کہتا ہے ترا نام اُتاریں دل میں اور کسی گہرے سمندر میں صدف ہو جائیں حیف وہ جنگ کہ دونوں ہی طرف ہوں اپنے ہائے وہ لوگ جو […]

کیا سخن تھے کہ جو دل میں بھی چھپائے نہ گئے

لبِ اظہار تک آئے پہ سُنائے نہ گئے ضعفِ مضرابِ تمنا کوئی دیکھے تو مرا تار بھی بربطِ ہستی کے ہلائے نہ گئے دل تو کافر ہی رہا توڑ کے بت خانہ بھی بت کچھ ایسے تھے کہ نظروں سے گرائے نہ گئے چشمِ نم بھول گئے، عارضِ تر بھول گئے یہ الگ بات وہ […]

اس شہرِ شب زدہ میں کہ جنگل سے کم نہیں

جگنو شعورِ ذات کا مشعل سے کم نہیں اک مختصر سا لمحۂ بے نور و بے یقین تقویمِ شب میں ساعتِ فیصل سے کم نہیں اک یاد مشکبو تری زلفِ سیاہ کی چشمِ شبِ فراق میں کاجل سے کم نہیں دامانِ احتیاج میں دینارِ بے کسب جوفِ شکم میں تیغ مصقّل سے کم نہیں حاصل […]

دونوں سرے ہی کھو گئے، بس یہ سرا ملا

اپنی خبر ملی ہے نہ اُس کا پتہ ملا رو رو کے مٹ گیا ہوں تو مجھ پر نظر ہوئی بینائی کھو گئی تو مجھے آئنہ ملا اُس کو کمالِ ضبط ملا، مجھ کو دشتِ ہجر لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا کو کیا ملا آنے لگے نظر غم و آلامِ دو جہاں بالغ نظر […]

راز در پردۂ دستار و قبا جانتی ہے

کون کس بھیس میں ہے خلقِ خدا جانتی ہے کون سے دیپ نمائش کے لئے چھوڑنے ہیں کن چراغوں کو بجھانا ہے ہوا جانتی ہے اک مری چشمِ تماشہ ہے کہ ہوتی نہیں سیر فکرِ منزل ہے کہ رُکنے کو برا جانتی ہے نشۂ عشق مجھے اور ذرا کر مدہوش بے خودی میری ابھی میرا […]

وہ ایک شخص کہ سب جا چکے تو یاد آیا

کسی کو آئے نہ آئے مجھے تو یاد آیا مقابلے پر اندھیرا نہیں ہوا بھی ہے کئی چراغ یکایک بجھے تو یاد آیا ہمارے ساتھ بھی موسم نے داؤ کھیلا تھا خزاں کے ہاتھ سے پتے گرے تو یاد آیا گئی رتوں کے پرندے ابھی نہیں لوٹے شجر پہ تازہ شگوفے کھلے تو یاد آیا […]

قتیلِ درد ہوا میں تو غمگسار آئے

رہی نہ جان سلامت تو جاں نثار آئے تمہارا غم تھا میسر تو کوئی روگ نہ تھا چلا گیا وہ مسیحا تو غم ہزار آئے قبائے کذب و ریا اور کلاہِ نام و نمود کہیں اُترنے سے پہلے ہی ہم اتار آئے ہوئی نہ جرات طوفِ حریم عشق ہمیں بس ایک سنگِ ملامت انا کو […]