قرآن کہا جائے نہ تفسیر کہا جائے

ہر فتویِٰ تکفیر کو تقصیر کہا جائے کس حرفِ طرح دار پہ انگشتِ یقیں رکھیں کس عکس کو سچائی کی تصویر کہا جائے کس دستِ مسیحائی پہ بیمار کریں بیعت جب زہرِ ہلاہل کو بھی اکسیر کہا جائے معیار بدلتے ہوئے اس دور میں ممکن ہے اک روز اندھیرے کو بھی تنویر کہا جائے آداب […]

آسرے توڑتے ہیں، کتنے بھرم توڑتے ہیں

حادثے دل پہ مرے دُہرا ستم توڑتے ہیں آستینوں میں خداوند چھپا کر اتنے لوگ کن ہاتھوں سے پتھر کے صنم توڑتے ہیں اُٹھ گئی رسمِ صدا شہر طلب سے کب کی اب تو کشکولِ ہوس بابِ کرم توڑتے ہیں جھوٹی تعبیر کے آرام کدے سے تو نکل خواب کتنے تری دہلیز پہ دم توڑتے […]

تاریک دیاروں میں اُجالے کا پتہ ہیں

ہم لوگ محبت ہیں، مروت کی ادا ہیں مٹِتا ہوا اک نقش ہیں ہم لوحِ جہاں پر بجھتے ہوئے خاموش ستاروں کی ضیا ہیں ہم دستِ محبت میں علمدارِ مساوات ہم دُور سے آتی ہوئی مانوس صدا ہیں ہم نطقِ محبت میں ہیں الفاظِ پذیرائی ہم چشمِ اخوت میں عنایت کی نگاہیں ہر اک کو […]

کچھ دیر کو رسوائی جذبات تو ہو گی

محفل میں سہی اُن سے ملاقات تو ہو گی بس میں نہیں اک دستِ پذیرائی گر اُس کے آنکھوں میں شناسائی کی سوغات تو ہو گی سوچا بھی نہ تھا خود کو تمہیں دے نہ سکوں گا سمجھا تھا مرے بس میں مری ذات تو ہو گی ہر حال میں ہنسنے کا ہنر پاس تھا […]

ہر روز تازہ حادثہ جب ہو گیا کہیں

تھک ہار کر ضمیر مرا سو گیا کہیں کھولی تھی جس میں آنکھ جوانی کے خواب نے وہ رَت جگوں کا شہر مرا کھو گیا کہیں کچھ دیر کو ملے تھے سر راہ احتیاج پھر یوں ہوا کہ میں کہیں، اور وہ گیا کہیں اُگتی ہے کشتِ ذات میں مایوسیوں کی پود کچھ خواہشوں کے […]

ہم خاک نشینوں کو نئی خاک ملی ہے

جو چھوڑ کر آئے وہی املاک ملی ہے ہم سادہ روش لوگ بدلتے نہیں چولے میلی ہی نہیں ہوتی وہ پوشاک ملی ہے پہنے ہوئے پھرتے ہیں تہِ جبہ و دستار در سے جو ترے خلعتِ صد چاک ملی ہے رکھی ہے بصارت کی طرح دیدہِ تر میں قسمت سے ہمیں نعمتِ نمناک ملی ہے […]

دوائیں رکھتے ہوئے، نشتروں کے ہوتے ہوئے

مرض تو بڑھ گئے چارہ گروں کے ہوتے ہوئے حریفِ جاں! یہ روایت نہیں ہماری کہ ہم عمامے پیروں میں رکھ دیں سروں کے ہوتے ہوئے ثبوت اور میں کیا دوں تجھے اسیری کا اُڑانیں دیکھ تو میری پروں کے ہوتے ہوئے ہر آدمی ہے تلاشِ اماں میں سرگرداں تمام شہر ہے بے گھر گھروں […]

جنگ اندھیرے سے بادِ برہم تک

ہے چراغوں کی آخری دم تک آدمی پر نجانے کیا گزری ابنِ آدم سے ابنِ درہم تک تم مسیحا کی بات کرتے ہو؟ ابھی خالص نہیں ہے مرہم تک معجزہ دیکھئے توکل کا ریگِ صحرا سے آبِ زمزم تک داستاں ہے شگفتنِ دل کی خندۂ گل سے اشکِ شبنم تک اک سفر ہے کہ طے […]

البم سے کئی عکس پرانے نکل آئے

لمحات کے پیکر میں زمانے نکل آئے بھولے ہوئے کچھ نامے، بھلائے ہوئے کچھ نام کاغذ کے پلندوں سے خزانے نکل آئے تھے گوشہ نشیں آنکھ میں آنسو مرے کب سے عید آئی تو تہوار منانے نکل آئے حیرت سے سنا کرتے تھے غیروں کے سمجھ کر خود اپنے ہی لوگوں کے فسانے نکل آئے […]

ناخداؤں کے کھُلے کیسے بھرم پانی میں

کیا سفینے تھے کئے غرق جو کم پانی میں شہر کا شہر ہوا گریہ کناں مثلِ سحاب کون دیکھے گا کوئی دیدۂ نم پانی میں ڈر نہیں سیلِ زمانہ سے کہ ہم سوختہ جاں سنگِ جاوا ہیں، نہیں ڈوبتے ہم پانی میں چھین لے مجھ سے مری خشکیِ دامن کا غرور جوشِ گریہ! ابھی اتنا […]