اپنوں نے بھی منّت کی، غیروں نے بھی سمجھایا

کرنا تھا جو اِس دل نے کیا، باز نہیں آیا نالہ کبھی کھینچا ہے، تو گیت کبھی گایا نازِ شبِ ہجراں تو کسی طور نہ اُٹھ پایا دیکھا تھا کبھی جس کی گلیوں میں اُسے دل نے چلتے ہی رہے ہم تو وہ شہر نہیں آیا آوارگی میری ہے رستے کے مقدر میں اور میرے […]

اہلِ دل چشمِ گہربار سے پہچانے گئے

دیدہ ور تیرے ہی دیدار سے پہچانے گئے ہم نے کب دعویٰ زمانے میں کیا الفت کا ہم تو چپ تھے، ترے انکار سے پہچانے گئے خود کو آزاد سمجھتے تھے مگر وقتِ سفر ایک زنجیر کی جھنکار سے پہچانے گئے معرکے جو بھی سمندر سے ہوئے ساحل تک میری ٹوٹی ہوئی پتوار سے پہچانے […]

راہبر دیکھ لئے، راہ گزر دیکھ آئے

بیچ رستے سے ہم انجامِ سفر دیکھ آئے عارضے اتنے نہیں جتنے مسیحا ہیں نصیب غمگسار اپنی دعاؤں کا اثر دیکھ آئے دیکھنے جس کو گئے تھے وہی بستی نہ ملی یاد کے اجڑے ہوئے چند کھنڈر دیکھ آئے نہ وہ منظر رہے باقی، نہ وہ آنکھیں ہی رہیں شہر رفتہ کو بہ اندازِ دگر […]

کب سے لگی ہے اُس کی نشانی کتاب میں

کاغذ مڑا ہوا ہے پرانی کتاب میں خلقِ خدا میں ٹھہری وہی سب سے معتبر لکھی نہ جا سکی جو کہانی کتاب میں طاقت ہے کس قلم میں کہ لکھے حدیثِ عشق ملتی ہے یہ کسی سے زبانی کتاب میں اربابِ جہل کرنے لگے شرحِ حرفِ عشق مت کیجئے تلاش معانی کتاب میں منشورِ حق […]

شعاعِ نورِ حرم ہے نئے چراغوں میں

خدا کا عکسِ کرم ہے نئے چراغوں میں یہ سلسلہ ہے وہی لو سے لو جلانے کا بجھے ہوؤں کا جنم ہے نئے چراغوں میں کمی جو اِن کے اُجالے میں ہے، ہماری ہے لہو ہمارا بہم ہے نئے چراغوں میں بجائے طاقِ شبستاں جلے ہیں رستوں پر اندھیری راہ کا غم ہے نئے چراغوں […]

ہوش و خرد، غرورِ تمنا گنوا کے ہم

پہنچے ترے حضور میں کیا کیا لٹا کے ہم کوہِ گرانِ عشق تری رفعتوں کی خیر دامن میں تیرے آ گئے تیشہ گنوا کے ہم ہم پیش کیا کریں اُسے کشکول کے سوا وہ ذات بے نیاز ہے، بھوکے سدا کے ہم نادم ہیں کر کے چہرۂ قرطاس کو سیاہ ناموسِ حرف اوجِ قلم سے […]

یہ مرا غم کسی صورت نہیں گھٹنے والا

ناخدا تھا مری کشتی کو اُلٹنے والا لذتِ درد کا موسم بھی کبھی بدلا ہے؟ ابرِ غم سر سے یہ برسوں نہیں چھَٹنے والا چھوڑ کر دیکھ تو احساس کا دامن اے دل غم رہے گا نہ کوئی جاں سے لپٹنے والا راہِ تسکین پہ لے آئی تمنا مجھ کو زندگی بھر بھی سفر اب […]

اپنے پندار کا در توڑ دیا میں نے بھی

بے لباس اپنا بدن دیکھ لیا میں نے بھی بے حسی کا کوئی مشروب تھا سب ہاتھوں میں زہر سمجھو کہ دوا ، پی ہی لیا میں نے بھی آدمی تھا میں فرشتہ تو نہیں تھا آخر جس طرح جیتے ہیں دنیا میں جیا میں نے بھی کرتے جاتے تھے سبھی کشتِ تمنا سیراب اپنی […]

خوشبو رہی چمن میں نہ وہ رنگ رہ گیا

تربت یہ گل کی، خار کا سرہنگ رہ گیا ہو لب پہ رام رام، بغل میں چھری رہے جینے کا اس جہاں میں یہی ڈھنگ رہ گیا ہر سنگ بھاری ہوتا ہے اپنے مقام پر انساں خلا میں پہنچا تو پاسنگ رہ گیا گلہائے رنگ رنگ روش در روش ملے دامن ہی آرزو کا مری […]

سرحدِ شہر قناعت سے نکالے ہوئے لوگ

کیا بتائیں تمہیں کس کس کے حوالے ہوئے لوگ اپنی قیمت پہ خود اک روز پشیماں ہوں گے سکّۂ وقت کی ٹکسال میں ڈھالے ہوئے لوگ آئینوں سے بھی نہ پہچانے گئے کچھ چہرے آتشِ زر میں جلے ایسے کہ کالے ہوئے لوگ کب سے ہے میرے تعاقب میں دہن کھولے ہوئے ایک عفریت شکم […]