مری زندگی پہ نہ مسکرا، میں اداس ہوں!

مری زندگی پہ نہ مسکرا، میں اداس ہوں مرے گمشدہ مرے پاس آ، میں اداس ہوں کسی وصل میں بھی بقائے سوزشِ ہجر ہے غمِ عاشقی ذرا دور جا، میں اداس ہوں میں منڈیرِ درد پہ جل رہا ہوں چراغ سا مری لو بڑھا مجھے مت بجھا، میں اداس ہوں مرے حافظے کا یہ حال […]

!آبرودار دربدر، سائیں

!آبرو دار دربدر، سائیں !ہے کٹھن ذیست کا سفر، سائیں مر نہ جاؤں میں بے قضا پل میں !تجھ سے ٹھہروں جو بے خبر سائیں اشہبِ وقت کب ٹھہرتا ہے !عمر بھی اتنی مختصر، سائیں ہم ادھر سے تو ہو لیے عاجز !اب بلاؤ کبھی اُدھر، سائیں زینؔ باقی گزارتا کیسے !راس آیا نہیں شہر، […]

نہ وہ ملول ہوئے ہیں، نہ ہم اداس ہوئے

مزاج ترکِ تعلق پہ بے لباس ہوئے بجھائے ایسے ہوا نے چراغِ خوش نظری فروغِ دید کے موسم بھی محوِ یاس ہوئے ہم اعتراض تھے ناقد مرے قصیدوں پر جمالِ یار کو دیکھا تو ہم سپاس ہوئے مری نظر میں خود اپنے ہی نقطہ ہائے نظر نہیں جو تیرا حوالہ تو بے اساس ہوئے یہ […]

وہ کلاہِ کج، وہ قبائے زر، سبھی کچھ اُتار چلا گیا

ترے در سے آئی صدا مجھے، میں دِوانہ وار چلا گیا کسے ہوش تھا کہ رفو کرے یہ دریدہ دامنِ آرزو میں پہن کے جامۂ بیخودی سرِ کوئے یار چلا گیا مری تیز گامیِ شوق نے وہ اُڑائی گرد کہ راستہ جو کھلا تھا میری نگاہ پر وہ پسِ غبار چلا گیا نہ غرورِ عالمِ […]

دیارِ شوق کے سب منظروں سے اونچا ہے

یہ سنگِ در ترا سارے گھروں سے اونچا ہے مقامِ عجز کو بخشی گئی ہے رفعتِ خاص جو سر خمیدہ ہے وہ ہمسروں سے اونچا ہے فرازِ طور کی خواہش نہ کر ابھی اے عشق یہ آسمان ابھی تیرے پروں سے اونچا ہے خدا مدد! کہ یہ شیطانِ نفسِ امّارہ مرے اُچھالے ہوئے کنکروں سے […]

اک جہانِ رنگ و بو اعزاز میں رکھا گیا

خاک تھا میں، پھول کے انداز میں رکھا گیا حیثیت اُس خاک کی مت پوچھئے جس کے لئے خاکدانِ سیم و زر آغاز میں رکھا گیا ق اک صلائے عام تھی دنیا مگر میرے لئے اک تکلف دعوتِ شیراز میں رکھا گیا ایک خوابِ آسماں دے کر میانِ آب و گِل بال و پر بستہ […]

پتھر ہی رہو، شیشہ نہ بنو

پتھر ہی رہو، شیشہ نہ بنو شیشوں کی ابھی رُت آئی نہیں اِس شہر میں خالی چہروں پر آنکھیں تو اُبھر آئی ہیں مگر آنکھوں میں ابھی بینائی نہیں خاموش رہو، آواز نہ دو کانوں میں سماعت سوتی ہے سوچوں کو ابھی الفاظ نہ دو احساس کو زحمت ہوتی ہے اظہارِ حقیقت کے لہجے سننے […]

میں ہوں چہرہ تری خواہش کا، مرے بعد تو دیکھ

آئنہ دیکھ تو دانش کا، مرے بعد تو دیکھ مجھ پہ ناکامی کے عنوان ابھی سے نہ لگا تُو نتیجہ مری کاوش کا مرے بعد تو دیکھ تُو مرے ہاتھ میں بجھتی ہوئی مشعل پہ نہ جا دُور تک سلسلہ تابش کا مرے بعد تو دیکھ پیاسی مٹی مجھے پی جائے گی مانا، لیکن قطرہ […]

پہاڑ، دشت، سمندر ٹھکانے دریا کے

زمیں کو رنگ ملے ہیں بہانے دریا کے کبھی سمندروں گہرا، تو ہے کبھی پایاب بدلتے رہتے ہیں اکثر زمانے دریا کے سفینہ سب کا سمندر کی سمت میں ہے رواں مگر لبوں پہ مسلسل ترانے دریا کے نہیں چٹان کے سینے پہ یوں ہی چادرِ آب ہیں آبشار کے پیچھے خزانے دریا کے بھنور […]

پندار کی ویران سرا میں نہیں رہتے

ہم خاک پہ رہتے ہیں خلا میں نہیں رہتے قامت بھی ہماری ہے، لبادہ بھی ہمارا مانگی ہوئی دستار و قبا میں نہیں رہتے ہم کشمکشِ دہر کے پالے ہوئے انسان ہم گریہ کناں کرب و بلا میں نہیں رہتے خاشاکِ زمانہ ہیں، نہیں خوف ہمیں کوئی آندھی سے ڈریں وہ جو ہوا میں نہیں […]