مرے شہر ذرّہ نواز کا وہی سر پھرا سا مزاج ہے

کبھی زیبِ سر ہے غبارِ رہ، کبھی زیرِ پا کوئی تاج ہے کہیں بے طلب سی نوازشیں، کہیں بے حساب محاسبے کبھی محسنوں پہ ملامتیں، کبھی غاصبوں کو خراج ہے وہی بے اصول مباحثے، وہی بے جواز مناقشے وہی حال زار ہے ہر طرف، جو روش تھی کل وہی آج ہے وہی اہلِ حکم کی […]

خود فریبی کے نئے کچھ تو بہانے ڈھونڈیں

اُس کی الفت کے علاوہ بھی ٹھکانے ڈھونڈیں گذری صدیوں کو گذارے چلے جائیں کب تک چھوڑ کر ماضی چلو اور زمانے ڈھونڈیں ہم کسی اور ہی اندازِ محبت کے ہیں لوگ تازہ رشتوں میں بھی اقرار پرانے ڈھونڈیں دل پہ مت لینا کہ لوگوں کی تو باتیں یوں ہیں جیسے اُڑتے ہوئے کچھ تیر […]

رستوں کا خوف ہے نہ مجھے فاصلوں کا ڈر

اُس کو سفر کا شوق، مجھے رہبروں کا ڈر جب سر پہ دھوپ تھی تو رہی بادلوں کی آس اب سر پہ چھت ہوئی تو مجھے بارشوں کا ڈر اک شخص جاتے جاتے بہت خامشی کے ساتھ کانوں پہ رکھ گیا ہے دبی آہٹوں کا ڈر محتاط چل رہا ہوں کہ چاروں طرف مرے شیشہ […]

سجا کے شبنمی آنسو گلاب چہرے پر

کہانی لکھ گیا کوئی کتاب چہرے پر نظر سے اٹھتا ہے برباد جنتوں کا دھواں سلگ رہے ہیں ہزاروں عذاب چہرے پر نگاہیں ساتھ نہیں دیتیں شوخیِ لب کا جھلک رہی ہے حقیقت سراب چہرے پر کہانیاں پسِ پردہ ہزار ہوتی ہیں طمانیت کا اگر ہو نقاب چہرے پر مرے مزاج کا رد عمل نہیں […]

زہر کی ہے یہ لہو میں کہ دوا کی تیزی

دل کی رفتار میں آئی ہے بلا کی تیزی اُس کے چھونے سے مرے زخم ہوئے رشکِ گلاب بس گئی خون میں اُس رنگِ حنا کی تیزی بھاوٴ بڑھتے ہی گئے عشقِ طلب گار کے اور راس آئی اُسے بازارِ وفا کی تیزی پھر کسی رخصتِ تازہ کی خبر دیتی ہے سرد موسم کے تناظر […]

نہ ملے تم، تو ملا کوئی تمہارے جیسا

فائدہ عشق میں دیکھا ہے خسارے جیسا موج اڑاتی ہوئی مخمور سمندر آنکھیں ڈھونڈتی رہ گئیں اک شخص کنارے جیسا عشق حیراں ہے ابھی پہلی نظر کے مانند حسن ابھی تک ہے وہ خاموش نظارے جیسا اک دھنک میرے تصور کو بنا رکھتا ہے اُن لبوں پر جو تبسم ہے اشارے جیسا وہ کہیں میرا […]

لوگوں نے ایک واقعہ گھر گھر بنا دیا

اُس کی ذرا سی بات کا دفتر بنا دیا پہرے قیامتوں کے لگا کر زبان پر دل کو ترے خیال نے محشر بنا دیا صادق تھے ہم بھی جذبۂ منزل میں اس قدر رستے کا ہر سراب سمندر بنا دیا لے لے کے نقشِ بندگی دہلیز سے تری ہم نے جبین عشق کا زیور بنا […]

پھر کسی آئنہ چہرے سے شناسائی ہے

عاشقی اپنے تماشے کی تمنائی ہے مہربانی بھی مجھے اب تو ستم لگتی ہے اک بغاوت سی رَگ و پے میں اُتر آئی ہے سنگِ برباد سے اٹھتا ہے عمارت کا خمیر خاکِ تخریب میں پوشیدہ توانائی ہے عصرِ حاضر کے مسائل ہوئے بالائے حدود اب نہ آفاقی رہا کچھ، نہ علاقائی ہے مسئلے دھرتی […]

تارہ تارہ بکھر رہی ہے رات

دھیرے دھیرے سے مر رہی ہے رات ہاتھ میں کاسۂ فراق لئے سر جھکائے گزر رہی ہے رات کتنی تنہا فضا ہے گلیوں کی سرد آہیں سی بھر رہی ہے رات میری آوارگی کے پہلو میں کو بکو در بدر رہی ہے رات اک دریچے سے راہ تکتی ہے سہمی سہمی ہے، ڈر رہی ہے […]

جانے کتنے راز چھپے ہیں ٹھہرے ٹھہرے پانی میں

کون اُتر کر دیکھے اب اس یاد کے گہرے پانی میں جل پریوں کی خاموشی تو منظر کا ایک دھوکا ہے فریادوں کا شور مچا ہے اندھے بہرے پانی میں کوئی سیپ اُگلتی ہے موتی اور نہ موجیں کوئی راز حرص و ہوا کے ایسے لگے ہیں چار سُو پہرے پانی میں جھیل کے نیلے […]