یہ مری ضد ہے کہ ملتان نہیں چھوڑوں گی

مر تو جاؤں گی تری جان نہیں چھوڑوں گی عشق لایا تھا مجھے گھیر کے اپنی جانب اس منافق کا گریبان نہیں چھوڑوں گی یہ تو ترکہ ہے جو پرکھوں سے ملا ہے صاحب دشت کو بے سرو سامان نہین چھوڑوں گی یہ نہ ہو سین بدلتے ہی بچھڑ جائے تو ہاتھ میں خواب کے […]

ہجر کا رنج گھٹے ، ایسی دعا جانتا ہے ؟

تو کوئی ورد ، کوئی اسم ، بتا جانتا ہے بس قیافوں پہ مجھے چھوڑ کے جانے والے یہ ترا شہر مرے بارے میں کیا جانتا ہے ؟ مشورے دیتے ہوؤں کو بھی کہاں ہے معلوم اتنا معصوم نہیں ، اچھا برا جانتا ہے تو نے کیا سوچ کے مضمون چرایا میرا دین اسلام میں […]

خوشبوئے گُل نظر پڑے ، رقص ِ صبا دکھائی دے

دیکھا توہے کسی طرف ، دیکھیے کیا دکھائی دے تب مَیں کہوں کہ آنکھ نے دید کا حق ادا کیا جب وہ جمال کم نُما دیکھے بِنا دکھائی دے دیکھے ہووٗں کو بار بار دیکھ کے تھک گیا ہوں میں اب نہ مجھے کہیں کوئی دیکھا ہوا دکھائی دے ایک سوال ، اِک جواب ، […]

جب خزاں آئے تو پتے نہ ثمر بچتا ہے

خالی جھولی لیے ویران شجر بچتا ہے نکتہ چیں ! شوق سے دن رات مرے عیب نکال کیونکہ جب عیب نکل جائیں ، ہنر بچتا ہے سارے ڈر بس اس ڈر سے ہیں کہ کھو جائے نہ یار یار کھو جائے تو پھر کونسا ڈر بچتا ہے غم وہ رستہ ہے کہ شب بھر اسے […]

گرچہ کم کم تری تصویر نظر آتی ہے

سات رنگوں کی صدا آٹھ پہر آتی ہے شاعری نامی پرندے کے ذریعے مُجھ تک کتنے نادیدہ زمانوں کی خبر آتی ہے حیرتی ہوں کہ گلی والے گُلوں کی خوشبو کیسے در کھولے بِنا صحن میں دَر آتی ہے کون فنکار سنبھالے وہاں مصرعے کی لچک قافیہ بن کے جہاں تیری کمر آتی ہے فیصلہ […]

تجھ میں اور مجھ میں وہ اب رازو نیاز آئے کہاں؟

اب میسر دھوپ میں ہیں زلف کے سائے کہاں؟ جانے والے سوچ کر جانا کہ بے حد شوخ ہے کیا پتہ ہے ایسے دل کا کس پہ آ جائے کہاں؟ تیرے میرے گھر میں جو دیوار حائل ہوگئی تیشۂ پُرزور کو مشکل ہے کہ ڈھائے کہاں؟ تم انا کے پاسباں تھے، ہم بھی غیرت کے […]

محبت برملا ہے یہ اشاروں سے نہیں ہوتی

سمندر کیا ہے ؟ آگاہی کناروں سے نہیں ہوتی مری قسمت ہے میرے ہاتھ میں، ہے کون جو بدلے؟ کہ یہ جرات تو خود میرے ستاروں سے نہیں ہوتی کسی اُمت کسی ملت کی اونچائی حقیقت میں معیاروں سے تو ہوتی ہے مِناروں سے نہیں ہوتی مجھے ان اپنے پیاروں سے کوئی شکوہ نہیں کیونکہ […]

باجرے کی جو اک خشک روٹی ملی

باجرے کی جو اک خشک روٹی ملی ، اس میں چڑیوں کا حصہ بھی رکھتے رہے کتنی چھوٹی سی بستی تھی بستی مری ، اور بستی میں کتنے بڑے لوگ تھے اوس موتی نما ، اشک موتی نما ، اور پیشانیوں کا پسینہ گہر شہر کیا تھا جڑاو گُلو بند تھا جس میں موتی کے […]

جو دل تمہارے زیرِ اثر تھے ، نہیں رہے

امکان واپسی کے ، اگر تھے ، نہیں رہے کیا خاک بچ گیا ہے اگر خاک بچ گئی یعنی جو لوگ خاک بسر تھے ، نہیں رہے ہم جذب ہو گئے سو رہے سجدہ گاہ میں سجدے میں اور جتنے بھی سر تھے ، نہیں رہے یوں تو رہا ہجوم چراغوں کے آس پاس جو […]

اس قدر تیر کمیں گاہِ جنوں سے نکلے

ہم بھی تھک ہار کے اب شہرِ فسوں سے نکلے وہ بھی گویا کہ دھواں بن کے فضآء میں بکھرا ہم بھی شعلے کی طرح اپنی حدوں سے نکلے چوٹ پڑتی رہی نقارے پہ اک عمر تلک صرف ہم تھے کہ جو درانہ صفوں سے نکلے ایک پتھر کی طرح گرتے ہوئے یاد آیا جوشِ […]