اردوئے معلیٰ

Search

یہ مری ضد ہے کہ ملتان نہیں چھوڑوں گی

مر تو جاؤں گی تری جان نہیں چھوڑوں گی

 

عشق لایا تھا مجھے گھیر کے اپنی جانب

اس منافق کا گریبان نہیں چھوڑوں گی

 

یہ تو ترکہ ہے جو پرکھوں سے ملا ہے صاحب

دشت کو بے سرو سامان نہین چھوڑوں گی

 

یہ نہ ہو سین بدلتے ہی بچھڑ جائے تو

ہاتھ میں خواب کے دوران نہیں چھوڑوں گی

 

اب نہ کمزور ہوں میں اور نہ ڈرنے والی

دشمنا ! ہار کے میدان نہیں چھوڑوں گی

 

اے خوشی ! پھر تو صدا دے کے کہیں چھپ گئی ہے

ہاتھ تو لگ ، میں ترے کان نہیں چھوڑوں گی

 

صرف اس بار اگر وصل عطا ہو جائے

پھر کبھی ہجر کا امکان نہیں چھوڑوں گی

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ