بچھڑنے والے کی باتوں کا دہرانا نہیں بنتا

اگر خاموش رہتی ہوں تو افسانہ نہیں بنتا کہانی کار تھوڑی دیر قصہ جاری رہنے دے کہ بالکل درمیاں آکر تو مرجانا نہیں بنتا انہیں آواز دے دے کر پرندے خود بلاتے ہیں کوئی مرضی سے ان پیڑوں کا دیوانہ نہیں بنتا تم ایسے نرم رو چہرے پرستانوں میں جچتے ہیں ادھر اک دشت ہے […]

جو نیست ہو چکا تھا عشق ہست کیسے ہوگیا

مری اسیریوں کا بندوبست کیسے ہوگیا بڑا ہی عام تھا کبھی مرا غلام تھا کبھی کمال ہے وہ شخص خود پرست کیسے ہو گیا اسے نصیب تھیں محبتوں میں دلنوازیاں وہ خودکفیل آج تنگدست کیسے ہوگیا ابھی تو وقت کی کوئی خراش بھی نہیں پڑی تو پھر غرور آئینوں کا پست کیسے ہوگیا یہ کس […]

جھگڑنا کاہے کا ؟ میرے بھائی پڑی رہے گی

یہ باپ دادا کی سب کمائی پڑی رہے گی اندھیرے کمرے میں رقص کرتی رہے گی وحشت اور ایک کونے میں پارسائی پڑی رہے گی ہوا کی منت کرو کہ گھر کے دئیے بجھے تو اداس ہو کر دیا سلائی پڑی رہے گی ہماری نظروں سے اور اوجھل اگر ہوئے تم زمانے بھر کی یہ […]

حویلی والوں کی حاکمیت و شاہ زوری کا مسئلہ ہے

سبھی ملازم ڈرے ہوئے ہیں سنا ہے چوری کا مسئلہ ہے ہر اک ڈرامے میں عشق رسوا و خوار ہوتا دکھا رہے ہیں ہر اک کہانی میں آج کل صرف کالی گوری کا مسئلہ ہے میں اپنی آنکھوں کو بند رکھوں تو پھر اثاثہ بچا سکوں گی یہ خواب میرے لئے تو جیسے کھلی تجوری […]

ربط اخلاص سے زیادہ ہے

ضبط بھی پیاس سے زیادہ ہے خاص ہوتے ہیں زندگی میں لوگ اور تو خاص سے زیادہ ہے جسم پہ اوڑھ لی ہے غربت جو جسم پہ ماس سے زیادہ ہے زخم تو چوٹ سے بھی گہرا ہے درد احساس سے زیادہ ہے مجھ سے وہ اس قدر گریزاں ہے بے بسی آس سے زیادہ […]

لوگوں نے اس لئے مجھے پاگل نہیں کہا

میں نے کبھی بھی دشت کو جنگل نہیں کہا اس شخص پہ بھی ہو کوئی تعزیر ، چپ رہا پر وقت کے حصار کو مقتل نہیں کہا دریائے عمر ، عمر بھر چلتا نہیں رہا ساکت ہوا بھی تو اسے دلدل نہیں کہا اے کم نصیب شخص تو خود کھو گیا کہیں میں نے تو […]

نہیں جناب ، کسی اور کی امانت ہیں

ہمارے خواب کسی اور کی امانت ہیں ہمیں یہ کہہ کے اداسی نے کردیا پھیکا یہ رنگ و آب کسی اور کی امانت ہیں دنوں مہینوں رتوں اور موسموں میں کٹے یہ سب حساب کسی اور کی امانت ہیں سوال ، عشق کا کرنے سے پیشتر سن لے مرے جواب کسی اور کی امانت ہیں […]

ہونے ہیں شکستہ ابھی اعصاب ، لگی شرط

دھتکارنے والی ہوں میں سب خواب ، لگی شرط اے شام کے بھٹکے ہوئے ماہتاب ، سنبھل کر ہے گھات میں بستی کا یہ تالاب ، لگی شرط اچھا تو وہ تسخیر نہیں ہوتا کسی سے یہ بات ہے تو آج سے احباب ، لگی شرط پھر ایک اسے فون میں رو رو کے کروں […]

یوں ترے نام کی تسبیح پڑھا کرتے ہیں

جیسے مسجد میں تروایح پڑھا کرتے ہیں یوسفِ عشق تجھے علم ہے کس رغبت سے دل کے مکتب میں یہ تلمیح پڑھا کرتے ہیں پہلی فہرست میں بس آپ کا نام آتا ہے پھول چہروں کی جو تشبیہ پڑھا کرتے ہیں آپ فرقت ہی لکھا کرتے ہیں ہر کاغذ پر اور ہم وصل کو ترجیح […]