زخموں کو چین آیا نہ پورے ادھڑ سکے

اچھے سے دل بسا ہے نہ کھل کر اجڑ سکے اپنی کہانی اس لئے سب کو سنائی ہے یہ شہر مجھ کو دیکھ کے عبرت پکڑ سکے عجلت میں اس نے جانے کا یوں فیصلہ کیا ہم ہاتھ جوڑ پائے نہ پیروں میں پڑ سکے بے شک وہ یونیورسٹی میں داخلہ نہ لے اتنا پڑھا […]

زمانے بھر کی گردشوں کو رام کر کے چھوڑ دوں

میں چاہوں جب بھی ہر خوشی کو عام کر کے چھوڑ دوں یہ عشق تو نہیں کہ عمر بھر کو تھام لوں اسے میں ہاتھ تیرا سرسری سلام کر کے چھوڑ دوں وہ یاد جس کی بے خودی میں علم ہی نہ ہو سکے میں کتنے سارے کام ایک کام کر کے چھوڑ دوں میں […]

لگاؤں ورثہ ء غم اس کے نام ، حاضر ہو

جسے عزیز ہے شہرت دوام حاضر ہو کچھ ایسے ہجر میرے گھر طواف کرتا ہے کہ جیسے شاہ کے آگے غلام حاضر ہو یہ قسط وار ہیں جو غم مجھے قبول نہیں مرے نصیب کا اب دکھ تمام حاضر ہو تو پورا شہر آجائے گا گنگناتا ہوا صدا لگاؤں گی اک خوش کلام حاضر ہو […]

مضمون ِ محبت کے شمارے میں پڑھا ہے

مضمون محبت کے شمارے میں پڑھا ہے اک ورد مسلسل جو خسارے میں پڑھا ہے کنکر سے ابابیل گرا دیتے ہیں ہاتھی میں نے یہ ابھی تیسویں پارے میں پڑھا ہے یہ رسمی تعارف بھی ضروری تھا مگر دوست پہلے بھی کہیں آپ کے بارے میں پڑھا ہے حیرت ہے کہ ہم چار برس مل […]

کوئی منتر کوئی تعویذ ؟ مرشد

محبت کب ہے اچھی چیز مرشد یہی تم سے ملائیں تو ملائیں دعائے وصل ، آنسو ، نیز مرشد کوئی چوکھٹ مرا مکہ مدینہ طواف- عشق اک دہلیز ، مرشد مریدین- سخن میری مریدی ؟ کہاں یہ فن کہاں نا چیز ، مرشد ؟ بہت مشکل میں دل آیا ہوا ہے سنبھل جائے ، کوئی […]

کہنا ایں کہ بیڑیاں پیراں چ نیں

شوخیا وے کیہڑیاں پیراں چ نیں چٹا کرتا ، کالی کوٹی، خیر ای؟؟ تلے والی کھیڑیاں پیراں چ نیں ٹردے ویلے مڑ کے تکیا ای نئیں کوئی چھلاں گیڑیاں پیراں چ نیں یاد کر توں پیار کہنا سیں کدی مشکلاں اج جیہڑیاں پیراں چ نیں ایہہ شرارت تیری اے یا خواب سی جو پزیباں چھیڑیاں […]

کیا مری بات پر یقین نہیں ؟؟

یار!! بہتر ہوں بہترین نہیں دیکھنے کی طلب فضول کہ میں عام سی ہوں ، بہت حسین نہیں شعر کہہ کہہ کے تھک بھی سکتی ہوں شاعرہ ہوں کوئی مشین نہیں وہ بھی نقاد ہیں مرے، جن کی بحر اپنی ، کوئی زمین نہیں وہ تو ہم نے بنا لیا مذہب ورنہ یہ عشق کوئی […]

ہجر کو خاک میں سمو کے دکھا

بیج اب خواہشوں کا بو کے دکھا ضبط کہتا رہا کہ شش ! خاموش زخم کہتا رہا کہ رو کے دکھا سینکڑوں تجھ پہ مرنے والی ہیں ؟ چل مجھے فون ایک دو کے دکھا کہہ دیا کہ نہیں دکھا منظر بس نہیں کہہ دیا ہے ، گو کہ دکھا تو مرے بعد خوب روئے […]

بات سننے کا ہے کچھ تو فائدہ دیوار کو

کھود کے دیکھوں گی میں باقاعدہ دیوار کو نفرتیں پل میں کسی کی اک جھلک پہ مٹ گئیں کھا گیا طوفان اک نوزائیدہ دیوار کو عقل کی باتیں نہ لکھ بے عقل کے ماتھے پہ تو مت سکھا قانون اور یہ قاعدہ دیوار کو اسنے واپس لوٹ کر آنا ہے اور نہ آئے گا دے […]

بے دری گھر مرا ، میں کہ فرضی مکیں فرض کر لی گئی

جس جگہ سے گئی تھی وہیں کی وہیں فرض کر لی گئی بولتی بھی تو کیا یاں تو سب ہی الٹ سمجھا جانے لگا میری چپ تھی جو ، "​ہاں”​ تو نہیں ، ہاں ، "​نہیں”​ فرض کر لی گئی میں نے پہنا تھا جھوٹا لبادہ فقط ظاہری حسن کا اور ستم دیکھئے کہ میں […]