چُپکے سے اُترمجھ میں
چاہت کا سبق پڑھ لے چپکے سے اُتر مجھ میں اِس دل کا ورق پڑھ لے
معلیٰ
چاہت کا سبق پڑھ لے چپکے سے اُتر مجھ میں اِس دل کا ورق پڑھ لے
(کوئٹہ کی برفباری سے متاثر ہو کر ) گردوں سے برستے ہوئے یہ برف کے گالے تنتے ہوئے ہر سمت ہر اِک چیز پہ جالے دُھنکی ہوئی روئی کی طرح صاف شگفتہ شفاف ، سبک ، نازک و خودرفتہ و خستہ رخشندہ و تابندہ و رقصندہ جوانی یہ برف کی بارش ہے کہ پریوں کی […]
گر یہ کناں شبوں کا غم سنو! تم کو پتہ ہوگا کہ سردی کی شبیں تو لمبی ہو تی ہیں پھر ایسے میں کسی کی نیند اُڑ جائے کسی کا چین کھو جائے کسی کی کروٹوں سے چادرِ بستر شکن آلود ہو جائے کتابیں پڑھنے کو دل ہی نہ چاہے فلم بھی دیکھی نہ جائے […]
دسمبر جارہا ہے سبز شاخوں سے شگوفے چھین کر سوچوں پہ چھائی کہرسی ہے بے ثباتی کا یہ عالم ہے ہراِک سہما ہوا ہے ہر کوئی ڈرتا ہے جانے کس گھڑی کیا حادثہ ہو جائے سب پر خوف طاری ہے گذرتے اِس برس نے دُکھ دیے ہیں چین چھینا ہے ہمیں لیکن ابھی جینا ہے […]
نومبر چل رہا ہے خنکی پیہم بڑھ رہی ہے ساتھ ہی اسکا رویہ سرد ہوتا جارہا ہے اور مجھ کو خدشہ ہے ان برف جیسے موسموں کی ٹھنڈمیں میری سسکتی چاہتوں کا انت ہو جائے گا۔
ہاں یہ میری پہلی چاہت ہے اور ابھی آغاز کی ساعت ہے تیرے ساتھ گزارا وقت اچھا لگتاہے تیری آنکھیں شفّاف ہیں تیرا لہجہ سچا لگتا ہے تیری باتیں پیاری ہیں تیرا چہرہ ’’تھیسس‘‘ (Thesis)ہے میری آنکھیں قاری ہیں جلدی جلدی ملتے ہیں تیرے دل میں چند زیادہ میرے دل میں کچھ کم رنگ برنگے […]
آج سترہ(۱۷) دِنوں بعد میں نے اُسے دیکھا تھا وہ کسی زرد سوکھی ہوئی پتّیوں کی طرح کرب چہرے پہ اوڑھے ہوئے جب مرے پاس سے گذری وہ اُس سے ملنے کی جتنی خوشی تھی مجھے اُس کے چہرے کی پژمردگی دیکھ کر سب اکارت گئی۔
سفر وہ بھی بس کا کئی گھنٹوں لمبا مسافر تھے خاموش بالکل سبھی نیند میں گم تھے شاید میں تنہا، اکیلا کروں تو کروں کیا؟ کہ لمحہ َصدِی تھا بتائے نہ بیتے اچانک ہی پھر دھیان کی سیڑھیوں سے کسی کی سُجل یاد اُتری تھی جو زینہ زینہ سفر کٹ گیا میرا
سبز چادر میں لپٹا ہوا گورا چٹّا وجود ایک دل میں دبی کتنی معصوم سی خواہشوں کو جگا دیتا ہے
پہچان نہیں ہے رنگوں کی مجھ کو میں اِس نعمت سے عاری ہوں کیونکہ میں نے اب تک اُس کے چہرے کی قوسِ قزح کے رنگوں سے آگے کوئی رنگ نہیں دیکھا