انتظار

تو اپنی ذات میں گُم ہے میں خود سے بے خبر ہوں ایک تنہا سا شجر ہوں بہتی ندّی کے کنارے چلچلاتی دھوپ میں کب سے کھڑا ہوں اپنی ہی ضد پر اڑا ہوں تو کبھی آئے سہی اک بار میرے پاس تیرے دل میں ہو احساس تو سائے بچھا دوں گا سواگت میں تِرے […]

گہری نیند (سیلاب کے موقع پر لکھی گئی ایک نظم)

مانجھیوں کا تھا رزق جو پانی اب انہیں کو ڈبو رہا ہے کیوں؟ جاگ اُٹھاّ چناب پھر شاید موت ہے لہر لہر پانی کی پیاس سب کی بُجھانے والایم بھُوک اپنی مٹا رہا ہے اب ہر کوئی سر جھُکا رہا ہے اب بستیاں سو گئی ہیں گہری نیند