موڑ
دو مسافر جدا راہوں کے اپنی منزل سے وہ بے خبر اجنبی تھے مگر ساتھ چلتے رہے دور کچھ ہی گئے تھے ابھی موڑ اِک آگیا نام جس کا جدائی پڑا
معلیٰ
دو مسافر جدا راہوں کے اپنی منزل سے وہ بے خبر اجنبی تھے مگر ساتھ چلتے رہے دور کچھ ہی گئے تھے ابھی موڑ اِک آگیا نام جس کا جدائی پڑا
تو اپنی ذات میں گُم ہے میں خود سے بے خبر ہوں ایک تنہا سا شجر ہوں بہتی ندّی کے کنارے چلچلاتی دھوپ میں کب سے کھڑا ہوں اپنی ہی ضد پر اڑا ہوں تو کبھی آئے سہی اک بار میرے پاس تیرے دل میں ہو احساس تو سائے بچھا دوں گا سواگت میں تِرے […]
ہم اپنے خواب لکھنے سے ذرا پہلے تمہاری یاد سے ہو کر گذرتے ہیں تو پھر جو کچھ قلم قرطاس پر تصویر کرتا ہے تمہارا عکس ہوتا ہے
سوچ پگڈنڈیوں پر رواں راگنی بے سکونی کے عالم میں اکثر، نمازوں کے بعد اِک تجھے بھولنے کی دعا مانگتا ہوں
نہیں،ناٹ(Not) نیور (Never)، نہ ، نو (No) اِن سبھی کی شروعات اِک حرف یعنی فقط ’’ن‘‘ سے ہوتی ہے اور اِن سب کا مفہوم بھی ایک ہے مجھ کو افسوس ہے صرف اِس بات کا، حرف پہلا ترے نام کا بھی یہی ’’ن‘‘ ہے
عجب ہے حافظہ میرا کہ جو میں یاد رکھنا چاہتا ہوں، بھول جاتا ہوں جسے میں بھولنا چاہوں وہی سب یاد رہتا ہے
مانجھیوں کا تھا رزق جو پانی اب انہیں کو ڈبو رہا ہے کیوں؟ جاگ اُٹھاّ چناب پھر شاید موت ہے لہر لہر پانی کی پیاس سب کی بُجھانے والایم بھُوک اپنی مٹا رہا ہے اب ہر کوئی سر جھُکا رہا ہے اب بستیاں سو گئی ہیں گہری نیند
اُسے کہہ دو نہ آئے میرے خوابوں میں مری آنکھوں کو تو خوابوں کی عادت ہے
کہ جس طرح سے مِری بقا کے لئے ضروری ہے آکسیجن اسی طرح تم بھی ہو ضروری
وہ لڑکی مِرا خواب ہے خواب جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں