یہ کیسے لوگ ہیں
یہ کیسے لوگ ہیں زم زم سے دھل کر بھی نہ ان کے پاپ گھٹتے ہیں نہ من کا میل جاتا ہے خدارا گل چکی روحوں کو دفنا دو کہ مردے دیر تک بے گور رکھنے سے تعفن پھیل جاتا ہے
معلیٰ
یہ کیسے لوگ ہیں زم زم سے دھل کر بھی نہ ان کے پاپ گھٹتے ہیں نہ من کا میل جاتا ہے خدارا گل چکی روحوں کو دفنا دو کہ مردے دیر تک بے گور رکھنے سے تعفن پھیل جاتا ہے
آ عالم حالت دیکھ مری مجھے گنجل گنجل کرڈالا اس عشق کے ظالم سائے نے آسیب نے سب ویران کیا یہ خون رگوں میں ٹھہرا ہے اب دھڑکن رک رک جاتی ہے اب سانسیں تھک کر چور ہوئیں یہ آنکھیں اب بے نور ہوئیں تسبیح کے دانے رولے ہیں سو بار مصلے کھولے ہیں ہر […]
جس نجومی کو دکھایا ہے وہی ایک جواب وہ مقدر کا ستارہ ہے نہ ہو سکتا ہے پوری دنیا بھلے پاؤں میں پڑی ہو لیکن ایک وہ شخص تمہارا ہے نہ ہو سکتا ہے
آج کل نیند بھی اذیت ہے وقت بے وقت آنکھ کھلتی ہے پھر یونہی رات کے گذرنے کا اک تماشہ سا دیکھتی ہوں میں وقت تصویر کر گیا ہے مجھے اب نہ آواز ہے نہ بینائی کتنی خاموش بے بسی ہوں میں ٹوٹ کر چاہنے کی خواہش میں ٹوٹ کر چور ہو گئی ہوں میں […]
چہرے پہ کچھ ملال ہے اور دل اسیر رنج اپنے پروں کا کس قدر مجھ کو غرور تھا میری اڑان آسماں کی وسعتوں میں تھی چاروں طرف بساط سے بڑھ کر تھی سرخوشی لیکن کسی کو راس کب آتی ہے زندگی جتنی طلب ہو ، پاس کب آتی ہے زندگی پوروں پہ جتنے درد ہیں […]
مجھے اپنا نہیں اس شخص کا دکھ ہے بچھڑ کے مجھ سے جس کی نظمیں اور غزلیں ادھوری رہ گئی ہونگیں
بارگاہِ تخیل میں ہیں صف بہ صف امداد بارگاہِ تخیل میں ہیں صف بہ صف دست بستہ ہزاروں کی تعداد میں لفظ اتنے کہ تاروں کی تعداد میں پئے نعت نبی میری امداد میں
اپنے آقا کے خالی شکم پر بندھے پتھروں کو جو دیکھا تو کعبے نے بھی اپنے خالی شکم پر انہیں کی طرح حجر اسود کو باندھا تھا اور آج بھی جی رہا ہے بڑی ہی عقیدت کے ساتھ اپنے آقا کی اس ایک سُنّت کے ساتھ
تو ہی بتا دے مجھے اے وقار ارض و سماںسوالیہ نشاں تو ہی بتا دے مجھے اے وقار ارض و سماں مرے نصیب میں کب تک نہیں زمیں کی جناں دیارِ پاک میں کب ہوگی حاضری میری؟ ہمیشہ سامنے ہے اک ’’سوالیہ سا نشاں‘‘ توہی بتا دے مجھے اے وقار ارض و سماں
رہِ طیبہ میں دیوانہ چلتا ہوا دم بہ دم گرتا پڑتا سنبھلتا ہوا جا رہا ہے سوئے سیدالانبیا شوق ہے رہنما اور کرم ساتھ ہے اک نہ اک دن یقینا پہنچ جائے گا ورد صلِّ علیٰ کا وہ کرتا ہوا