تمام آخرِ شب کو مری حیات ہوئی

شکستِ خواب سے پہلے شکستِ ذات ہوئی مرا ہی شاہ پٹا ہے مرے پیادوں سے سرِ بساط بغاوت ہوئی تو مات ہوئی میں جھٹپٹے کی خلا میں ٹھہر گیا ہوں کہیں کوئی سحر نہیں پھوٹی نہ کوئی رات ہوئی غبارِ مرگ میں تنہا سفر ضروری تھا پسِ غبار مری ساری کائنات ہوئی عروسِ شعر یونہی […]

درد روزن سے مجھے گھور رہا ہے اب تک

میں نے جو زخم سیا تھا وہ ہرا ہے اب تک میرے جراح تجھے بھول کہاں سکتا ہوں ایک نشتر مرے سینے میں گڑا ہے اب تک ایک بس تیرے بدلنے پہ ہی موقوف نہیں عشق کم بخت سے کیا خاک ہوا ہے اب تک رات ہونے کو ہے بہتر ہے کہ اب کوچ کریں […]

کب سے اک سمت بلاتا ہے ستارا ہم کو

دیکھئے پھر سے کیا اسنے اشارا ہم کو چل پڑے ہیں تری ہجرت کا تعاقب کرنے نغمہِ بزم بلاتے ہوئے ہارا ہم کو اب یہ عالم کہ سماعت پہ گراں گزرے ہیں کل ترا جسم بھی کرتا تھا گوارا ہم کو ہم کہ ناقابلِ تسخیر گنے جاتے تھے وقت نے اور ہی ترکیب سے مارا […]

دشتِ امکان سے گزر جائیں

آؤ ہم راستے میں مر جائیں اٹھ تو آئے ہیں تیرے پہلو سے اب نہیں سوجھتا کدھر جائیں تم اسی وقت کوچ کر جانا ہم اگر راہ میں بکھر جائیں ہم بھلا شعر کیا سنائیں گے لوگ جب سوچنے سے ڈر جائیں یا تو پرواز جا سکے تجھ تک یا ہواؤں پہ اپنے پر جائیں […]

تو جس کو مانگتا ہے وہی تاج پوش سر

تیرے حضورِ ناز کبھی کا جھکا چکے دیکھیں تو کیا چھپا ہے پسِ پردہِ فنا ائے زندگی تجھے تو بہت آزما چکے دم بھر کو دم بھی لیں تو نہیں اب مضائقہ ہم دل کی دسترس سے بہت دور آ چکے تم آ گئے ہو تو ہو چلو رقصِ مرگ پھر یوں تو ہزار بار […]

مآلِ سوزِ عشقِ نہاں صرف راکھ ہے

اب یادگارِ شہرِ بتاں صرف راکھ ہے وہ لو کہ جو رہی تھی رگِ جان کھو چکی ہم لوگ ہیں وہاں پہ جہاں صرف راکھ ہے تھی حدتوں کی کھوج بِنائے مسافرت پر زیرِ پائے عمرِ رواں صرف راکھ ہے شعلوں کے ساتھ رقص کرو جان توڑ کر ان گردشوں کے بعد میاں صرف راکھ […]

گونجتا تھا کوئی خلا اس میں

کاش کوئی تو جھانکتا اس میں وہ جنوں اور کس کے سر جاتا میں نے ہونا تھا مبتلا اس میں ایک پاتال تھا تعاقب میں میں کہ اک روز گر گیا اس میں وہ برستا رہا بہت مجھ پر میں بہت بھیگتا رہا اس میں میری ہستی میں ایک جنگل تھا میں بہت مطمئن رہا […]

غم کو شکست دیں کہ شکستوں کا غم کریں

ہم بندگانِ عشق عجب مخمصے میں ہیں آزاد کب ہوئے ہیں غلامانِ کم سخن جو طوق تھے گلے میں سو اب بھی گلے میں ہیں تم مل چکے ہو اہلِ ہوس کو، مگر یہ ہم مصروف آج تک بھی تمہیں ڈھونڈنے میں ہیں اک نقشِ آرزو کہ جھلکتا نہیں کہیں یوں تو ہزار عکس ابھی […]

مجھ کو ملے شکست کے احساس سے نجات

ائے کاش دستِ غم مرے پرزے اڑا سکے دل کو سگانِ شہرِ ہوس نوچتے رہے سادہ دلانِ عشق فقط مسکرا سکے ائے کاش کہ فصیل بنے کربِ مرگِ دل تو بھی مرے قریب جو آئے نہ آ سکے جادو گرانِ شوق نے کر لی ہے خودکشی کم بخت عمر بھر میں یہ کرتب دکھا سکے […]

آخر غبارِ دشتِ ہزیمت میں ڈھے گئے

عشاقِ کم نصیب تری جستجو میں تھے اب ان کا زکر بھی نہ رہا داستان میں کل جو محاوروں کی طرح گفتگو میں تھے خواہش کے ساتھ ساتھ فراموش ہو گئے جو خوش گمان لوگ تری آرزو میں تھے اک برف سی رواں ہے رگ و پے میں آجکل رقصاں کبھی جنون کے شعلے لہو […]